عید کی خوشیاں اور غموں کی داستان۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!!!!۔

Posted on at


عید مسلمانوں کے لئے ایک ایسا تہوار ہے کہ جس میں وہ اپنے درد اور غموں کو بھول کر دوسروں کے ساتھ یہ خوشی مناتے ہیں۔ یہ خوشی خدا نے اپنے بندوں کے لئے ایک تحفہ کے طور پر عطا کی ہے۔ عیدیں دو طرح ہوتی ہیں۔ ایک عید کو ہم روزوں کے تحفے کے طور پر قبول کرتے ہیں جبکہ دوسری عید قربانی کی ہوتی ہے۔ روزوں والی عید کو ہم عموماً چھوٹی عید کے نام سے بھی یاد کرتے ہیں لیکن اِس کا اپنا نام بھی ہے جسے ہم عیدالفطر کے نام سے جانتے ہیں۔ جبکہ دوری عید کو بڑؑی عید بھی کہتے ہیں جسے ہم عیدالعضحیٰ کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ عیدیں ہمیشہ خوشی منانے کے لئے ہی آتی ہیں تاکہ تمام انسان اپنے آپ سکون محسوس کریں اور خوشی کے ساتھ اپنے درد اورغموں کو بھول کر اِس دن کا تہوار منائیں۔ کچھ لوگ اِس دن کا بڑی بے چینی کے ساتھ انتظار کرتے ہیں۔ کچھ اپنی پریشانیوں اور اُلجھنوں میں اِسطرح گم ہوتے ہیں کہ اُنہیں اِس دن کا کچھ یاد ہی نہیں رہتا۔ ہم لوگ اپنی خوشیاں میں کچھ اِسطرح مگن رہتے ہیں کہ ہمیں اپنے آس پاس کی خبر تک بھی نہیں رہتی کہ کون کس حال میں ہے؟؟؟؟؟۔

 

چھبیسویں رمضان المبارک میں اپنی سہیلی سے ملنے گئی تھی جب میں اُس کے گھر گئی تو مجھے اُس کے گھر والوں نے کہا کہ وہ گھر پر نہیں ہے۔ میں نے جب نہ ہونے کی وجہ پوچھی تو جواب ملا کہ وہ کِدھر گئی ہوئی ہے۔ جب پوچھا کہ کہاں تو جواب ملا کہ اُس کے چچّا زاد بھائی کا قتل ہوا ہے وہاں گئی ہے۔ مجھے یہ سن کر بہت افسوس اور دکھ ہوا کہ رمضان جیسے مہینے میں بھی لوگ اپنے ہاتھ دوسرے مسلمان کے خون سے رنگتے ہوئے بھی نہیں ڈرتے۔ عید سے دو دن پہلے ہی جب میری سہیلی واپس آئی تو میں اُس سے دوبارہ ملنے چلی گئی۔ جب اُس سے ملاقات ہوئی تو میں نے اُس سے پوری تفصیل پوچھی۔ اُس نے مجھے بتایا تھا کہ اُس کا چچّا زاد بھائی اپنے دوستوں کا کہہ کر دوپہر کے وقت روزے کی حالت میں گھر سے نکلا تھا اور اُس کی امّی نے بھی اُسے اپنے دوستوں کے ساتھ جاتے ہوئے دیکھا لیکن شام کو اُس کی میّت خون میں لدھی ہوئی ایک وحشیانہ انسان کی حالت میں گھر پہنچی۔ اُس کے چہرے اور جسم کو دیکھ کر لگا رہا تھا کہ جیسے کسی جانور نے اُسے اپنے خوراک کا شکار بنایا ہو۔   

 

جب اِس بارے میں میرے چچّا کے گھر والوں نے اُس کے دوستوں سے پوچھا کہ یہ تو تم لوگوں کے ساتھ ہی نکلا تھا تو پھر اِس حالت میں کیوں واپس آیا؟؟؟؟ اُس کے دوستوں نے جواب دیا کہ وہ شام تک ہمارے ساتھ ہی تھا۔ پھر بعد میں یہ کہہ کر ہم سے کہ وہ اب گھر جانا چاہتا ہے، افطاری کا وقت ہے، چلا گیا، اُس کے بعد ہمیں نہیں پتا کہ وہ کہاں گیا؟؟؟؟ اور اُس کے ساتھ کیا ہوا؟؟؟؟ یہ حقیقت کسی کو بھی معلوم نہیں کہ اُس کے ساتھ کیا ہوا؟؟؟؟ اب تک۔ اور میری سہیلی نے یہ بھی ساتھ ساتھ کہا کہ اُس کی چچّی اپنے بیٹے کے غم میں پاگل ہو گئی ہے، اُنہیں دنیا کا ہوش ہی نہیں ہے۔ بار بار اپنے بیٹے کو یاد کرتی ہیں اور اپنی بیٹیوں سے کہتی ہیں کہ اپنے بھائی کے کپڑے اِستری کر کے رکھ دو تاکہ عید والے دن وہ پہنے اور نماز پڑھ کر جب آئے تو سب سے پہلے میرے ساتھ عید مبارک کرے۔ یہ باتیں کرتے ہوئے میری سہیلی کی آنکھوں سے بےتحاشا آنسو نکل رہے تھے جسے مجھے بھی دیکھ کر تکلیف ہو رہی تھی۔

 

اُس وقت میرے دماغ میں یہی آواز آ رہی تھی کہ اِس دنیا میں یہ وحشیانہ ظلم کیوں ہوتا ہے؟؟؟؟ آخر کیوں بہت سی ماؤں کے بیٹے اِس درندگی کا شکار ہوتے ہیں؟؟؟؟ آج جب عید کے تیسرے دن اُس سے پھر ملنے گئی تو ایسا لگا کہ جیسے غموں اور آنسوؤں کی اک دنیا میں میں نے اپنا قدم رکھا۔ اُس گھر میں داخل ہوتے ہی ایسا محسوس ہونا شروع ہوا کہ جیسے میں بھی اُن کی تکلیف کی شریک ہوں۔ یہ کہانیاں میں نے ہر روز اپنی آنکھوں سے اخباروں میں، نیوز میں، اور لوگوں کے منہ سے اکثر سنی ہے لیکن آج جب پہلی بار کسی اپنے کو اِس تکلیف میں دیکھا تو لگا کہ یہ درد اِس خوشی کے موقع پر کتنا تکلیف دیتی ہے۔ ہم اپنی خوشیاں میں اِسطرح مگن ہوتے ہیں کہ اِس بات کا ہوش بھی نہیں رہتا کہ ہمارے آس پاس کے لوگوں پر کیا بیت رہی ہے؟؟؟؟ میں بھی رمضان کے شروع ہی سے اپنی عید کی تیاری کر رہی تھی اور یہی سوچ رہی تھی کہ میں عید ایسے مناؤں گی ویسے مناؤں گی۔ لیکن یہ عید کیسے گزری یہ میں نے پہلی بار محسوس کی۔   

====================================================================

........................................................................................................................................
If you people want to read and share my any previous blog open the link below: 
http://www.filmannex.com/Aafia-Hira/blog_post 
Subscribe my Page Aafia Hira 

You Can Follow me on Twitter: Aafia Hira

Written By: Aafia Hira          

Thanks For Your Support Friends.
........................................................................................................................................

====================================================================



About the author

Aafia-Hira

Name Aafia Hira. Born 2nd of DEC 1995 in Haripur Pakistan. Work at Bit-Landers and student. Life isn't about finding your self.LIFE IS ABOUT CREATING YOURSELF. A HAPPY THOUGHT IS LIKE A SEED THAT SHOWS POSITIVITY FOR ALL TO REAP. Happy to part of Bit-Landers as a blogger.........

Subscribe 0
160