گڈ گورننس - اصل میں کہتے کسے ہیں؟

Posted on at


گڈ گورننس .  اصل میں کہتے کسے ہیں؟

رمضان المبارک کا مہینہ بھی گزر گیا اور عید الفطر کا مقدس تہوار بھی مگر پتہ چلا کہ ہم سے زیادہ بد نظم اور ظالم قوم کوئی اور شاید ہی ہو۔  چاند رات کو کئ لوگ معروف شاپنگ سینٹروں کے سامنے ٹہلتے ہوئے اپنے عزیزوں کو بتا رہے تھے کہ جوتوں کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں برانڈڈ جوتوں پر کوئی کوئی ہی ہاتھ دھر سکتا ہے اور بچوں کو نئے کپڑے اور جوتے پہنانے کی خواہش معدوم ہوتی جارہی ہے اور اگر چادر دیکھ کر پاؤں پھیلانے کی شعوری کوشش بھی کی جائے تو بھی یا تو سر ننگا ہوتا ہے یا پیر۔

پیسے کی بے برکتی کا یہ عالم پہلے نہیں دیکھا گیا مگر جوں جوں وقت گزر رہا ہے عید منانا تو کجا عام دنوں کو جھیلنا اور خود کو مسائل کی چکی میں پسنے سے بچانا کٹھن ہوتا جا رہا ہے۔

اس ملک میں زکواۃ اور خیرات کی تقسیم میں غفلت اور بد انتظامی کے دلخراش واقعات کے بارے میں سن کر دل کانپ اٹھتا ہے۔ کئی مخیر ہستیوں کی جانب سے راشن کی تقسیم کے وقت ہونے والی بد نظمی اور افراتفری کے باعث کئی خواتین کے جان سے گزر جانے کے واقعات، اس طرح سستے آٹے کی تقسیم کے وقت مستحق افراد پر ہونے والے لاٹھی چارج سے بے حد دکھ ہوتا ہے۔ ہمارے ملک میں غربت کی شرح ۴۰ فیصد سے زیادہ ہوچکی ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ ملک میں کسمپرسی کی زندگی گزارنے والوں کی تعداد ۶ کروڑ ۸۰ لاکھ سے تجاوز کر گئی ہے اقتصادی ماہرین کے اندازے کے مطابق اگر عا لمی بینک اور بین الاقوامی مالیات فنڈ (آئی ایم ایف) کی ہدایت پر پڑولیم مصنوعات اور بجلی کے نرخ مزید بڑھے تو غربت کی شرح ۱۵ سے ۱۸ فیصد مذید بڑھنے پر مفلسی کے شکار افراد کی تعداد ۸ کروڑ سے تجاوز کر جائے گی۔

کبھی ہم نے غور کیا ہے کہ حکومت ہو یا اپوزیشن کے با اثر افراد اس ملک کو کیا دے رہے ہیں؟ ایک جانب مذہبی انتشار (رویت ہلال کمیٹی کے تنازعات) دوسری طرف اس ملک میں آپریشن اور تیسری جانب سستے آٹے کے حصول کے لئے روزے کی حالت میں گھنٹوں انتظار کرنے کے بعد دھکے کھانے اور تشدد کے مرحلوں سے گزر کر جان کی بازی ہار جانا ، کیا کامیاب جمہوریت کا منظر نامہ ہوسکتاہے؟ کیا غریب مرنے کے لئے پیدا ہوا ہے؟ مہنگائی ، بے روزگاری، لوڈ شیڈنگ اور غربت کا شکار افراد کہاں جائیں؟

گڈ گورننس صرف کاغذوں پر کیوں موجود ہے؟ حکومت کے زکوۃ فنڈ پر لوگوں کو اعتماد کیوں بحال نہیں ہوسکا حالانکہ اگر اس نظام کو کرپشن سے پاک اور شفاف بنایا جاتا تو زکوۃ کے حجم او مستحقین کی امداد موثر انداز میں کی جانی ممکن ہوسکتی تھی۔ سرکاری سطحوں پر یوٹیلٹی اسٹوروں کے ذریعے سستی اشیائے خورد و نوش کی فروخت میں بد انتظامی ختم کی جاسکتی ہے۔ سماجی تنظیمیں کیوں فعال نہیں ہوتیں کہ زکوۃ اپنے ہاتھوں اور خوشی سے تقسیم کرنے کی خواہش بھی پوری ہواور بہت سے پریشانیوں سے بچا جاسکے۔ کیا ضروری ہے کہ خواتین اور بچوں کو نا گفتہ بہ صورتحال کا سامنا کرنے کے لئے ٹوکن دے کر چھوٹے چھوٹے فلیٹوں کے باہر ہجوم لگایا جائے کیونکہ نہ کھلے میدانوں میں قطاریں لگا کر خوش اسلوبی سے زکوۃ کی تقسیم کی جائے ضروری نہیں کہ کھلے میدانوں میں تشہیر کا سامان کیا جائے خاموشی سے بھی یہ کا م کیا جا سکتاہے۔

غربت اور پسماندگی کے بڑھتے ہوئے سیلاب کو روکنے کی کوئی تدبیر کرنی پڑے گی۔ ملکی معیشت کے فیصلے زمینی حقیقتوں کو سامنے رکھ کر کرنے کی ضرورت ہے۔ خبریں تو آتی ہیں کہ بہت جلد عوام کو ریلیف دیا جائے گا مگر تب تک بہت دیر نہ ہو جائے۔ اشرافیہ ٹیکسوں کی ادائیگی کو معمول بنا لے تو غرباء کے لئے آپ ہی آپ دستر خوان وسیع ہو جائے گا۔ لیکن حکومت اور اپوزیشن کو بھی اپنی شاہ خرچیوں پر قابو پانا ہوگا۔ حکمرانوں کی جانب سے عوام کو بیانات کی لوریاں دی جارہی ہیں انہیں گڈ گورننس کی اصل شکل تو دکھائیے ورنہ ووٹ کی ہی ایک پرچی تمام اگلے پچھلے کاموں کا حساب برابر کر لے گی۔



About the author

muhammad-haneef-khan

I am Muhammad Haneef Khan I am Administration Officer in Pakistan Public School & College, K.T.S, Haripur.

Subscribe 0
160