حضرت جنید بغدادیؒ ’’ حصہ دوم‘‘

Posted on at


 

ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ آپ کے ماموں سری سقطیؒ آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے دیکھا کہ آپ کچھ پریشان ہیں پھوچھا ماموں جان خیریت تو ہے فرمایا ہاں خیریت ہے آج ایک نوجوان میرے پاس آیا تھا پوچھتا تھا کہ توبہ کی کیا تعریف ہے؟ آپ نے جواب عرض کیا توبہ یہ ہے کہ اپنے گناہوں کو بالکل محو کر دے

بعض سیرت نگاروں نے لکھا ہے کہ اول اول آپ وعظ کہتے ہوئے جھجکتے تھے مگر جب آپؒ کو خواب میں حضرت محمدؐ کی زیارت ہوئی تو انکے ارشاد پر آپ نے وعظ کہنا شروع کیا اس عرصے مین آپ کے ماموں جناب سری سقطیؒ انتقال کر چکے تھے حضرت جنیدؒ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ میرے دل مین شیطان کو دیکھنے کی خواہش پیدا ہوئی چنانچہ ایک روز مسجد کے دروازے پر کھڑا تھا کہ ایک بوڑھا آدمی آتے ہوئے دیکھائی دیا جب وہ میرے قریب آیا تو مجھے اسے دیکھ کر سخت نفرت ہوئی میں نے اس سے پوچھا تو کون ہے؟ اس نے کہا میں وہی ہوں جیسے تم دیکھنا چاہتے تھےتب مین نے اس سے کہا اے گستاخ تجھے کس بات نے روکا کہ تو آدم کو سجدہ نہ کرے

تو شیطان کہنے لگا اے جنید تم ایسے موحد کے دل میں یہ خیال کیونکر پید اہوا ؟میں خدا کے سوا کسی اور کو سجدہ کروں آپؒ فرماتے ہیں مجھے اس کا جواب سن کر کوئی جواب نہ بن پڑا بہت حیران ہو قریب تھا کہ میرا یمان متزلزل ہو جائے مجھے غیب سے ندا آئی  اے جنید اس سے کہہ دو کہ تو بالکل جھوٹا ہے اگر تو اللہ کی ذات پر بھروسہ اور اخیارات پر ایمان رکھتا تو کبھی حکم عدولی نہ کرتا پس شیطان نے میرے دل کی آواز سن لی اور میری نگاہوں سے غائب ہو گیا

حضرت جنید بغدادیؒ کے مزاج مین حلم ، تحمل اور برد باری کوٹ کوٹ کر بھری تھی طبیعت میں سنجیدگی ، متانت و شفقت آپ کا جوہر خاص تھا یہی سسب ہے کہ علماء اور صوفیاء دونوں گروہوں میں نہایت معزز و محترم تھے ہر چند بعض شر پسند طبائع نے آپ سے حسد کیا اور آپ کو تکالیف پہچانے کی کوشش کی مگر اللہ تعالی کی نصرت و تائیدایزدی ہمیشہ آپ کے ساتھ رہی۔

  



About the author

sss-khan

my name is sss khan

Subscribe 0
160