میرے جزبوں میں ہے تاثیر اتنی

Posted on at


....فروا حیدر.....
ٹر ن ٹرن،فروا بیٹا گھر کب آؤ گی؟رات کے دس بج رہے ہیں۔
امی نے فون پر گھبرائے ہوئے لہجے میں سوال کیا۔
جی جی امی،راستے میں ہوں ٹریفک بہت ہے اس لیے اب تک گھر نہیں پہنچ سکی،آپ پریشان نہ ہوں سب خیریت ہے اور میں بھی خیریت سے ہوں،
چلو اللہ کا شکرہے بیٹا،اچھا اپنا خیال رکھنا خدا حافظ۔
میری خیریت ملنے کے بعد امی جان نے بڑے اطمینان کے ساتھ فون بند کیا۔
آپ لوگوں کو بھی ایسا ہی محسوس ہو رہا ہوگا کہ جیسے میں سات سمندر پار اپنی امی جان سے فون پر بات کررہی ہوں مگر ہمیں یہ بات تو ماننی پڑے گی کہ ہمارے والدین ملک کے غیر یقینی حالات میں جتنا پاکستان کے اندر رہتے ہوئے فکرمند ہیں اتنا شایداگر ہم ملک سے باہر ہوتے توپریشان نہ رہتے،خیر یہ والدین کی شفقت اور محبت ہے کہ وہ اپنے بچوں خاص کر بیٹیوں کے لیے زیادہ حساس ہوتے ہیں۔

پاکستان جہاں غربت،بے روزگاری اور صحت کے مسائل سے دوچار ہے وہیں دہشت گردی اس ملک کا بنیادی مسئلہ بن چکی ہے جس سے نہ بچے محفوظ ہیں نہ بڑے نہ مرد اور نہ ہی خواتین لیکن اس قوم کے عزم اور حوصلے کے آگے یہ شرپسند عناصر کبھی کامیاب نہیں ہوسکتے۔

خواتین کے عالمی دن پر آج ان گوہر نایاب خواتین کو یاد کرتے ہیں جنہوں نے دہشت گردی اور باطل کے آگے اپنا سر جھکنے نہیں دیا بلکہ دنیا بھر کو یہ باور کرادیا کہ حالات چاہے کتنے ہی کٹھن اور مشکل کیوں نہ ہوں لیکن جیت ہمیشہ سچائی کی ہوتی ہے،یہ دہشت گرد ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکتے اور اس دہشت گردی کو ایک نہ ایک دن ہمارے آگے گھٹنے ٹیکنے ہی پڑیں گے۔

16دسمبر2014کی صبح آرمی پبلک اسکول پشاور کی پرنسپل طاہرہ قاضی جو گزشتہ 20سال سے تدریس کے فرائض سر انجام دے رہی تھیں وہ یہ سوچ کر گھر سے چلیں کہ آج بھی روز کی طرح اسکول کے بچوں کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کروں گی، انہیں بتا ؤں گی کہ قلم میں ہماری جیت ہے اس لیے تعلیم کے ہر میدان میںآگے بڑھتے جاؤ کیو نکہ ہماری کامیابی صرف تعلیم میں ہے لیکن انہیں کیا معلوم تھا کہ16دسمبر ان کے اسکول اور بچوں کے لیے دہشت گردی کا گرہن لے کر آئے گااور پھول جیسی نازک کلیوں کو مسل کے رکھ دے گا۔

طاہرہ صاحبہ بھی ایک ماں تھیں، وہ جانتی تھیں کہ اپنی اولاد کو کھونے کا دکھ کیا ہوتا ہے اس لیے اپنی جان کی پرواہ کیے بغیر اپنی آخری سانس تک اسکول کے بچوں کو بچانے کی بھرہور کوشش کی اور اسی کوشش میں اپنی جان کا نذرانہ پیش کردیا،لیکن بندوق کے آگے اپنا سر جھکنے نہیں دیا۔

24سالہ فضہ ملک جس نے کچھ ہی عرصہ پہلے لندن اسکول آف لاء سے قانون کی تعلیم حاصل کی اور یہ سوچ کر اپنے ملک واپس آئی کہ بے گناہوں کو انصاف دلائے گی اسی لیے فضہ نے ایف ایٹ کچہری اسلام آباد میں پریکٹس کا ارادہ کیا۔4مارچ2014 کی صبح فضہ بہت خوش تھی کیونکہ آج وہ کسی کو انصاف دلانے جارہی تھی، وہ ابھی کورٹ پہنچی ہی تھی کہ اچانک کسی نے کچہری کے اندر گھس کر اندھادھند فائرنگ اور خودکش بم دھماکے شروع کردئیے،فضہ گھبرا کر کورٹ روم سے باہر نکلی تو دیکھا کہ افراتفری کا عالم ہے ہرکوئی اپنی جان بچانے کی کوشش کررہا ہے،فضہ نے بھی اپنی جان بچانے کی کوشش کی لیکن دہشت گردوں کی گولی نے اس کے ہنستے مسکراتے چہرے سے ہنسی چھین لی،فضہ کے دوستوں کو آج بھی یہ یقین نہیں آتا کہ وہ ہم میں نہیں،ہماری حفاظت کے لیے مامور پولیس جن میں مرد کے ساتھ خواتین بھی اہم کردار ادا کرتی ہیں،جولائی2014میں کرن نامی

لیڈی پولیس کانسٹیبل بھی اپنے ملک کے شہریوں کو تحفظ فراہم کر نے کے لیے گھر سے روانہ ہوئیں لیکن انہیں کیا خبر تھی کہ یہ سفر ان کی زندگی کا آخری سفر ہوگااور کوگوں کی جان بچانے والی خود کسی نامعلوم گولی کا نشانہ بن جائے گی۔

پروین رحمان جو کہ اورنگی پائلٹ پروجیکٹ کی ناصرف ڈائریکٹر تھیں بلکہ کئی جامعات میں تدریس کے شعبے سے بھی وابستہ رہیں ان کی یہ خواہش تھی کہ وہ شہر کراچی کی کچی آبادیوں کو تعمیر کرائیں اور اسی حوالے سے وہ اپنے طالب علموں کو تعلیم بھی دیتی تھیں، انہیں کیا خبر تھی کہ اپنے شہر کی تعمیروترقی کا خواب دیکھنا ان سے زندگی جینے کا حق ہی چھین لے گاکیونکہ دہشت گردوں کو تعمیر نہیں صرف تباہی پسند ہے اس لیے 13مارچ2013کو چار مسلح افراد نے پروین رحمان کی گاڑی پر گولی مار کر ان کی جان لے لی۔

7دسمبر2012کو بارہ سالہ لڑکی مہظر زہرہ روزانہ کی طرح صبح سویرے اپنے بابا کے ہمراہ اسکول جارہی تھی اس بات سے انجان کہ اس کا یہ اسکول تک کا سفر اپنے بابا کے ساتھ آخری سفر ہوگا،اسکول جاتے وقت شدت پسند عناصر نے مہظر اور اس کے والد پر فائرنگ کردی ،ننھی سی جان شدید زخمی ہوئی اور اس کے بابا ہمیشہ کے لیے مہظر سے جدا ہوگئے،ادھر مہظر اسپتال میں زندگی اور موت کی جنگ لڑتی رہی اور آخرکار وہ زندگی کی بازی جیت گئی لیکن اس جیت کی خوشی میں اس کے بابا ساتھ نہیں،مہظر آج بھی اپنے آپ سے سوال کرتی ہے کہ اسے علم حاصل کرنے کی پاداش میں گولی ماری گئی یا فرقہ پرستی کی آڑ میں دہشت گردی کا نشانہ بنایا گیا۔

خواتین کے عالمی دن پر میں اپنی اس تحریرکے ذریعے ان تمام خواتین کو خراج عقیدت پیش کرتی ہوں جو اتنے سخت حالات میں بھی دہشت گردی کے خلاف کھڑی ہیں چاہے وہ ایک گھریلو عورت ہو،پولیوورکر،پولیس،ٹیچر، طالبہ، صحافی یاپھرزندگی کے کسی بھی شعبے سے وابستہ ہو،مجھے یہ یقین ہے کہ ان بے لوث اور حقیقی جذبوں کے آگے نفرت کی یہ آگ ایک نہ ایک دن ٹھنڈی ضرور ہوگی۔

میرے جذبوں میں ہے تاثیر اتنی

نفرت کی آگ ایک دن ہوگی بجھنی

توکیا ہوا حالات مشکل مگر ہیں وقتی

سنو اے دشمن! ابھی تو ہے باقی 

تمہاری بندوق میرے قدموں کے آگے جھکنی - See more at: blog.jang.com.pk/blog_details.asp?id=10717#sthash.vXFZKWw1.dpuf



About the author

faheemqamar

i am a student of computer science

Subscribe 0
160