ویلنٹائن ڈے یا مسئلہ کشمیر

Posted on at


....فرخ نور قریشی......
پچھلے دنوں دیگر ممالک کی طرح کچھ حلقوں نے پاکستان میں بھی ویلنٹائین ڈے منایا۔ دوسری طرف ان پر مذہبی جماعتوں کی جانب سے کڑی تنقیداور کچھ کی جانب سے سنگین نتائج کی دھمکیاں بھی ملیں۔ حیرت اس بات کی ہے کہ امت مسلمہ کی ہر کوتائی اور غلطی کا ملبہ یہودی لابی پہ ڈالنے والی یہ مذہبی جماعتیں سوشل میڈیا بالخصوص فیس بک پر اپنے official fan pages رکھتی ہیں، با وجود اس کے کہ فیس بک کا بانی اور مالک ایک یہودی ہی ہے۔ ان جماعتوں نے سوشل میڈیا پہ بھی ویلنٹائین ڈے کے خلاف ایک زبردست مہم چلائی اور بارہا اس دن کو منانے والوں پہ ملامت کرتے رہے۔ ان کی طرف سے متعد قرآنی آیات پوسٹ کی گئیں جن میں بے حیائی سے بچنے کی تلقین کی گئی۔ محبت کے اس دن کو عیاشی اور بے حیائی سے جوڑا گیا اور اس حقیقت کو کلی طور پر نظر انداز کردیا گیا کہ کسی شخص کی عیاشی و بے حیائی اس کے اپنے عمل کی محتاج ہے۔ اگرایک لڑکی برقعہ پہن کراور منہ چھپا کرغرض کہ اپنی دانست میںایک شرعی پردہ کرتے ہوئے کسی لڑکے سے ملنے ڈیٹ (date) پہ چلی جاتی ہے تو کیا ویلنٹائین ڈے کا قصور ہوگا یا اس کے اپنے عمل کا؟ اسی طرح کوئی شخص رمضان میں پورے روزے رکھتا ہے ، پانچ وقت نماز اور رات میں تراویح بھی پڑھتا ہے، روزہ خوروں کو حقارت بھری نظروں سے بھی دیکھتا ہے اور قرآن کی تلاوت سے بھی فیضیاب ہوتا ہے لیکن پھر عید کے پہلے ہی دن دلفریب مناظر اور رقص سے بھرپور، عید کا تحفہ نئی پشتو فلم دیکھنے دوستوں کے ساتھ سنیما چلا جاتاہے تو کیا اس میں عید کے تہوار کا کوئی قصور ہے، یا اس کے اپنے ذاتی عمل کا؟

بے حیائی کا تعلق تہواروں سے نہیں بلکہ اپنی ذات، عمل اور ظرف سے ہے۔

جنہوں نے گزشتہ14 فروری کو ویلنٹائین ڈے منایا انہوں نے گناہ کیا یا نہیں کیا، جو کچھ کیا اپنے لیئے اور اپنی ذاتی حیثیت میں کیا ۔ فرض کیجیئے اگر میں ویلنٹائین ڈے پر اپنی بیوی کو ایک عدد گلاب کا پھول عنایت کردوں تو میں کسی اور کو کیا تکلیف پہنچاؤں گا؟ پھول اپنی بیگم کو ہی دیا کسی اور کی تو نہیں ۔

اور اگر میں کنوارہ ہوں اور کسی لڑکی سے سچی محبت کرتا ہوں اور اسے اپنی شریک حیات بنانا چاہتا ہوں تو کسی اور پہ کونسی قیامت یا ظلم کے پہاڑ ٹوٹ پڑیںگے اگر میں اس سے کہہ دوں کہ میں اس سے کتنی محبت کرتا ہوں۔

کچھ لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ اس دن نامحرموں کے ساتھ عشق کا اظہار کیا جاتا ہے اور یہ عیاشیاں اسلامی اقدار کے خلاف ہیں اس لیئے یہ دن منانا نہیں چاہئے۔ میں بتانا چاہتا ہوں کہ اسلام میں عیاشی ممنوع ہے محبت نہیں۔ پسند کی شادی پہ اسلام پہرے نہیں لگاتا۔ اسلامی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں کہیں آپ کو ایک case نہیں ملے گا جہاں کوئی عورت اور مرد ایک دوسرے کو پسند کرتے ہوں اور ایک دوسرے کو جیون ساتھی بنانا چاہتے ہوںاور اللہ کے رسول نے ان کی پسندیدگی کو نا پسند فرمایا ہو؟ ہاں مختلف ادوار میں آپ کو نام نہاد مولویوں کی ایسی کئی مثالیں ضرور مل جائیں گی جنہوں نے بے حیائی کے نام پر محبت کرنے والوں کو اپنے فتوؤں اور جبر سے جدا کیا۔ کیا یہ لوگ اللہ کے رسولؐ سے زیادہ دین جانتے ہیں یا نعوذ باللہ ان سے زیادہ خدا کے قریب ہیں؟ اللہ کے رسول نے تو یہاں تک فرما دیا کہ ـ’اگر دو لوگ ایک دوسرے سے محبت کرتے ہوں تو ان کے لیئے اس سے بہتر اور کچھ نہیں کہ وہ شادی کرلیںـ‘ (صحیح الجامی 5200)۔ 

کچھ لوگوں نے اور خاص کر مسلمانوں نے ویلنٹائین ڈے کی تاریخ کو لے کر کئی کہانیاں گڑھ دی ہیں اور اس کی بنیادی وجہ اپنے نظریئے کو سپورٹ کرنا ہے۔ ہم وہی مسلمان ہیں جو کمپیوٹر سافٹ ویئرز کا استعمال کرتے ہوئے کبھی آلو پہ اللہ کا نام لکھ کر اسے معجزہ بتاتے ہیں ہوئے انٹرنیٹ پہ عام کردیتے ہیں، کبھی مسجد کے گنبد کو جعلی animations کے ذریعے ہوا میں اڑا دیتے ہیں۔نیت یہ ہوتی ہے کہ اہل مغرب کواسلام سے متاثر کرینگے۔لیکن جب اہل مغرب ان تمام دو نمبریوں کا بھانڈا پھوڑتے ہیں تو پوری امت کو پشیمانی کا سامنا کرنا پڑجاتا ہے۔ہم نے تو دین کو لیکر خود اپنی credibility ہی ختم کردی۔ 

Wikipedia اس و قت آن لائن کمیونٹی کا سب سے بڑا انسائیکلوپیڈیا ہے۔میں چاہوں گا کہ آپ خود وہاں جا کرویلنٹائین ڈے کی تاریخ کا مطالعہ کریں ۔ میں مختصراََ آپ کو بتا دیتا ہوں۔ یہ اسلام کی آمد سے قبل تقریباََ 268-270عیسوی کا دور تھا جب Claudius II ،ایک لادینی سورما سلطنت روم کا بادشاہ تھا۔ اس نے رومی فوج کے جوانوں پر شادی کی پابندی لگا رکھی تھی۔ اس کے نظریئے کے مطابق ایک شادی شدہ انسان کمزور اور بزدل سپاہی بن جاتا ہے، اور اس کا دھیان جنگ کے میدان سے ہٹ کر اپنے بیوی بچوں میں لگا رہتا ہے۔اسی عہد میں ایک عیسائی پیشوا Valentinus نے اس کی اِس غیر انسانی و غیر اخلاقی رسم سے بغاوت کی اور رومی سپاہیوں کی شادیاں کروانا شروع کردیں۔ Valentinusکو اس بغاوت کے عیوض مارا پیٹا گیا اور اس کا سر اس کے تن سے جدا کردیا گیا۔ اس یاد میں مختلف ادوار اور مختلف اقوام و علاقوں میں یہ دن St. Valentine Day کے نام سے منایا جاتا ہے جس کی اصل روح وہ قربانی ہے جو Valentinus نے Claudius II کے ظلم کے خلاف دی، ہاں اسے منانے کے طریقوں پہ اختلاف ہوسکتا ہے۔ تاریخ کے پنوں میں یہ بھی لکھا ہے کہ Valentinus نے کچھ لوگوں کو پناہ بھی دے رکھی تھی جنہیں Claudius II نے گرفتاری یا سزا کا حکم دیا ہوا تھا۔ Valentinus ان پناہ گزینوں سمیت پکڑا گیا ۔ Claudius II نے Valentinus کو اپنے سامنے حاضر کروایا اور اس سے اس جرم کی وضاحت چاہی۔ دوران گفتگو Claudius II ، Valentinus سے اس قدر متاثر ہوا کہ اس نے اسے اس شرط کے ساتھ معافی کی پیش کش کی کہ وہ عیسائیت چھوڑ کر اس کی طرح لا دین ہوجائے۔ Valentinus نے اس کی شرط ٹھکرا دی اور Claudius نے اسے زندان میں ڈال دیا۔ زندان کے جیلر کی ایک بیٹی تھی جس کا نام جولیا تھا۔ یہ لڑکی اندھی تھی۔ کہا جاتا ہے کہ Valentinus نے معجزاتی طور پر اس لڑکی کا علاج یوں کیا کہ اس کی بینائی واپس آگئی۔ یہ دونوں ایک دوسرے کو دل دے بیٹھے۔Valentinus کو سزائے موت سنا دی گئی اور موت سے ایک رات قبل Valentinus نے جولیا کو ایک پیار بھرا خط لکھا جس کا عنوان تھا ـ ــ’My Dear Valentine’۔ 

Valentinus کی قربانی مذہب کی خاطر نہیں تھی، بنیادی انسانی حق کی خاطر تھی۔ میری سمجھ اس بات سے قاصر ہے کہ میں ان واقعات کو کس طرح مذہب سے جوڑوں۔ ہم تہواروں میں تمیز کیوں نہیں رکھ پاتے۔ کیوں ہمارے لیئے یہ سمجھنا مشکل ہے کہ کچھ تہوار مذہبی ہوتے ہیں، کچھ ثقافتی ، کچھ قومی اور کچھ تہوار یاد میں منائے جاتے ہیں۔

آپ میں سے اکثر اس بات سے اتفاق کرینگے کہ ہمارے مذہبی تہوار وہی ہیں جو اللہ اور اس کے رسولﷺ نے ہمیں بتا دیئے اس کے علاوہ جو بھی تہوار ہیںوہ عقیدت و یاد میں منائے جاتے ہیں۔ اسی طرح عیسائی تہوار بھی وہی ہیں جو اللہ اور حضرت عیسیٰؑ نے بتائے۔ صرف یہی اصل مذہبی تہوار ہیں ۔

اسی بات کو قرآن میں میرا اللہ یوں بتاتا ہے، ـ ’ ہم نے ہر قوم کے لیئے مذہبی رسومات بتا دی ہیںجس پر وہ چلتے ہیںتو یہ لوگ (بت پرست)تم سے اس امر میں جھگڑا نہ کریں اور تم اپنے پروردگار کی طرف بلاتے رہو۔ بے شک تم سیدھے رستے پر ہو۔ـ‘ (22:67 القرآن)

ویلنٹائین ڈے ایک واقعے ایک سانحے ایک قربانی کی یاد میں منایا جاتا ہے لیکن اس کا حکم اللہ اور حضرت عیسیٰؑ نے کہیں نہیں دیا لہٰذا یہ کوئی مذہبی تہوار نہیں۔چناچہ اسے منانا کسی عیسائی تہوار کو منانے کے مترادف نہیں رہا۔

Valentinus کی طرح اگر ہم ہر عیسائی کی قربانی یا عمل کو عیسائیت سے جوڑیں گے تو پھر ہمیں یکم مئی کے ان عیسائی مزدوروں کی اپنے حق کے لیئے قربانی کو بھی عیسائیت سے جوڑ دینا چاہئے جن کی یاد میں ہم اور پوری دنیا یوم مئی مناتی ہے۔ 

ٓاگر کوئی ویلنٹائین ڈے محض اس لیئے نہیں مناتا اور دوسروں کو بھی منانے سے روکتا ہے کہ یہ مغربی کلچر کا حصہ ہے، تو انہیں معلوم ہونا چاہئے کہ مشرق و مغرب دونوں اللہ کے ہیں، صرف مشرق نہیں۔ کونسی چیز ہے ہمارے درمیان جو مغربی نہیں۔ جس لاؤڈ اسپیکر پہ مولوی صاحب پانچ وقت اذان دیتے ہیں وہ بھی مغربی ہے۔ جس کمپیوٹر کی اسکرین پہ آپ یہ بلاگ پڑھ رہے ہیں وہ بھی مغربی ہے۔ جس بجلی کے بغیر آپ سڑکوں پہ آکر لوگوں کی گاڑیاں جلاتے ہیں، وہ بجلی بھی مغربی ہے۔جس سٹیلائٹ کے ذریعے آپ ہزاروں میل دور اپنے پیاروں سے بات کرتے ہیں ، وہ سٹیلائٹ بھی مغربی ہے۔ پھر یہ مغربی کلچر کے نام پر دوغلہ پن کیوں؟ 

آپ کے مذہب کو کوئی بدل نہیں سکتا لیکن کلچر ہمہ وقت بدلتا رہتا ہے۔ ایک چھوٹی سی مثال دیتا ہوں، ایک عورت کسی گھر میں بیاہ کر آتی ہے، اور سالن میں مصالحہ کم ڈالتی ہے، جبکہ اس گھر میں پہلے تیز مصالحوں کا رواج تھا۔اس عورت کے آتے ہی کھانوں کا ذائقہ بدلا مطلب اب اس گھر کے کھانوں کی روایت بدل گئی۔ اتنی معمولی نوعیت کی روایت یا کلچر کو تو کوئی روک نہیں سکتا، سوچئے کلچر کے بڑے پہلو کیونکر رک سکتے ہیں۔

اس سب کے باوجود لوگوں میں اختلاف ہے اور رہے گا کہ یہ دن منانا چاہئے یا نہیں۔ جب اللہ کے رسولﷺ ، اللہ کے احکامات کھل کر اپنی امت کو بتادیئے اور امت نے پھر بھی آپس میں ان کھلے احکامات پر اختلاف کیا اور یوں 72 فرقے بنا ڈالے، تو ہماری اس بحث کی تو کہیں کوئی حیثیت نہیں رہ جاتی۔اختلاف زندگی کا اٹوٹ حصہ ہے لیکن ہمیں اختلافات کے ساتھ ہی جینا ہے۔اختلافات کے باوجودہمیں پیارو محبت بھی قائم رکھنی ہوگی، برداشت بھی کرناہوگا اور امن بھی قائم رکھنا ہوگا۔ ہم لوگ مسلک کی بنیاد پر ایک دوسرے سے شدید اختلاف رکھتے ہیں، مثلاََ ایک فرقے میں طلاق کی کچھ شرائط ہیں اور دوسرے میں کچھ اور۔ ظاہر ہے کسی ایک کی بات درست ہوگی اور جس کی بات درست نہیں وہ نادانستہ ہی سہی لیکن گناہ کبیرہ کا مرتکب ضرور ہوگا (بیشک معاف کرنے والا اللہ ہے) ۔ جب اتنے بڑے فرق اور گناہ کے باجود ایک مسلک دوسرے مسلک پہ اپنا نظریہ زبردستی تھوپ نہیں سکتا یا ڈنڈے یا دھمکی کے زور پر اپنی بات پہ عمل پیرا نہیں کراسکتا اور نہ کرانا چاہئے ، تو ویلنٹائین ڈے کو منانے والی معمولی بات پر کوئی کیسے اپنی مرضی دوسروں پہ مسلط کرسکتا ہے۔ آپ اس دن کو منانے یا نہ منانے پہ اختلاف کر سکتے ہیں لیکن ایک دوسرے کو کان سے پکڑ کر اپنے نظریئے پہ چلا نہیں سکتے۔آپ اختلاف رکھیئے لیکن ایک دوسرے کی تذلیل مت کیجئے۔ اگر آپ کو لگتا ہے کہ یہ دن منانا گناہ ہے۔۔۔تو میرے بھائی راہ میں چلتی ہر وہ لڑکی بھی گناہ گا ر ہے جس کے سر پہ دوپٹہ نہیں۔۔۔تو کیا آپ اس لڑکی کا راستہ روک کر اسے اسلامیات کا درس دینگے یا ڈنڈے سے مارکے سمجھائیں گے؟ یہ گناہ یا ثواب اسکا ہے اس کی اپنی ذات کی حد تک ۔ نہ آپ نے کسی کی قبر میں جانا ہے نہ کسی اور نے آپ کی، اس لیئے اپنی فکر کیجئے - 



About the author

faheemqamar

i am a student of computer science

Subscribe 0
160