مسور کی دال

Posted on at


 

دنیا کے ہر ملک میں دال کھائی جاتی ہے۔ پاکستان میں زیادہ تر ارہڑ، چنا، ماش، مونگ، موٹھھ اور مسور کی دالیں پکائیں جاتی ہیں۔ یہ سب دالیں بنیادی طور پر مختلف پودوں کے بیج ہیں۔ جس طرح ہر بیج کے فوائد اور سختی مختلف ہوتی ہے۔ اسی طرح ان کو نرم کرنے کا عرصہ بھی مختلف ہوتا ہے۔ کچھھ دالیں جلد پک جاتی ہیں۔ اور کچھھ کو پکانے میں زیادہ وقت لگتا ہے۔ دالوں کو گلانے کا ایک طریقہ یہ ہے کہ انہیں پانی میں بھگونے کے بعد اچھی طرح ملائیں۔ اس عمل سے ان کے اوپر کا چھلکا اتر جاتا ہے۔

بیج نرم ہو جاتے ہیں اور بعد میں پکانا نسبتاً آسان ہو جاتا ہے۔ پکانے کے لیے چھلکا اتارنا ضروری ہوتا ہے۔ کیونکہ بعض چھلکے کھائے نہیں جاسکتے ہیں۔ جیسے گندم، چاول اور جو کا چھلکا وغیرہ۔ لیکن کچھھ دالوں کے چھلکے ایسے ہیں جن کو آسانی سے چبایا اور کھایا جاسکتا ہے۔ جیسے کہ چنے اور مسور کے چھلکا۔ بعض لوگ چھلکے ضرور اتارتے ہیں۔ اور بعض ان کے سمیت کھانا پسند کرتے ہیں۔

 

چھلکا خواہ کسی بھی بیج کا ہو انسانی صحت کے لیے مفید ہوتا ہے۔ بیج اور چھلکے کے درمیان مفید کیمیائی عناصر اور وٹامن بی کی ایک تہ ہوتی ہے۔ چھلکا اتارنے، بیج کو رگڑ کر دھونے اور پھر مشینوں کے ساتھھ چمکانے کے عمل میں وٹامن بی ضائع ہو جاتے ہیں۔ چھلکا بذات خود ہضم نہیں ہوتا لیکن وہ پیٹ میں جاکر ایسی صورت حال پیدا کرتا ہے۔ جس سے اجابت کا عمل آسان ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے جس کہ بنا پر نبی کریمﷺ نے آٹے سے چوکر نکالنا منع فرمایا۔

انسانی خوراک کے لیے کاشت کی جانے والی نباتات میں مسور قدیم ترین چیز ہے۔ صحت مند رہنے۔ جسم میں بیماریوں کا مقابلہ کرنے اور جسم کی اپنی ٹوٹ پھوٹ کی مرمت کے لیے ہمیں پروٹین اور لحمیات کی ضرورت رہتی ہے۔ یہ لحمیات ہمیں مچھلی، گوشت اور انڈے کھانے سے حاصل ہوتی ہے۔ لیکن یہ لحمیات حاصل کرنے کا ذریعہ غریب لوگوں کے لیے بہت مہنگا ہے۔ اس لیے اللھ پاک نے اپنی قدرت میں غریب لوگوں کے لیے مختلف بیجوں میں لحمیات کا ذخیرہ جمع کر دیا ہے۔ اور ان ذخیروں کو غریب آدمی کے لیے لحمیات کا نام بھی دیا گیا ہے۔ 



About the author

noor-fatima

M a Engnieer

Subscribe 0
160