قارئین کرام یہ نظم ایک نئی شاعرہ فاطمہ سلیم کی ہے. اس کو نظم کے قوائد سے ہٹ کر پڑھیے اور صرف اس درد کو محسوس کیجیے جو شاعرہ نے کیا.
''اے قائد کہاں سے لائیں تجھے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔''
لہو لہو ہیں ارِضِ وطن کی گلیاں
کہیں سوگ ہے ، کہیں ماتم ہے یہاں
اُٹھتے ہیں جنازےِ، ہوتی ہے آہ و بکا
چھا گئے ظلم کے سائے ، سو گئے حکمراں
کیسے جگائیں تجھے، کیسے اُٹھائیں تجھے
اے قائد کہاں سے لائیں تجھے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
تیر ہے، تلوار ہے، بندوق ہے
کھو گیا قلم، ہوا دفن جذبہِ ایماں
نعرہِ تکبیر بھی ہے، نعرہِ شمشیر بھی ہے
بِک گئے ضمیر، نھیں ہے سکت شکستِ دُشمناں
کیسے جگائیں تجھے، کیسے اُٹھائیں تجھے
اے قاٰئد کہاں سے لائیں تجھے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
بِکتا ھے عدل و اِنصاف سر بازار یھاں
چور لٹیرے قاتِل سارے بنے ھیں حافِظ و نِگہبان
مار ڈالا ہے حرص و ھوس نے جہاں
کیسے بچائے وہ قوم پاکِستاں
کیسے جگائیں تجھے، کیسے اُٹھائیں تجھے
اے قائد کہاں سے لائیں تجھے
فاطمہ سلیم