قبر اقبال سے آرہی تھی صدا

Posted on at


یہ تحریر دسمبرکے آخری دنوں میں لکھ رہاہوں وہ دسمبر جس کے آتے ہی زخم ہرے ہوجاتے ہیں ۔ انڈیاکی ننگی جارحیت نے مادرِ وطن کے دو ٹکڑے کردئیے۔ ایک بازو کاٹ کر رکھ دیا۔جسد ِملّت پرلگا ہوازخم اتنا گہراہے کہ قیامت تک نہ بھرسکے گا۔میں ٹین ایجر تھا جب میں نے اس سانحے پر بڑے معتبر اور باوقار لوگوں کو دیوانہ وار دیواروں سے ٹکریں مارتے دیکھا ۔ کیسے بھول جاوٴں کہ میں نے پہاڑ جیسا حوصلہ رکھنے والے اپنے والد محترم کو دھاڑیں مار کرروتے دیکھا۔ محترمہ بشریٰ رحمن نے چند روز پہلے اپنے کالم میں اس دسمبر کاذکرکرتے ہوئے لکھا تھا ”یہ 16دسمبر1971ء کی شام تھی میں بچوں کو سینے سے لگاکر رو رہی تھی کیونکہ میرے بابا کی نگری لٹ گئی تھی، اتحاد کی نیّاڈوب گئی یقینِ محکم کی رسّی ٹوٹ گئی تھی۔۔۔کون تھا جو نہیں رویا۔۔۔بابائے قوم کی سسکیاں میں نے خودسنیں آشیانے کے تنکے بکھر جانے پر پوری قوم تڑپ اٹھی تھی۔۔۔۔“

کیایہ تاریخ نہیں ہے۔۔۔۔تاریخ درست کرنے کے شوقین بتائیں کہ وہ تاریخ کے ان اوراق کو نئی نسل سے کیوں چھپانا چاہتے ہیں۔کیا وہ چاہتے ہیں کہ قائد کے پاکستان کے دو ٹکڑے کرنے والے مجر موں کی شناخت نہ ہو۔ان کے چہرے ڈھانپ دئیے جائیں، ان کے قصیدے پڑھے جائیں اور اُن کی پیروی کیاجائے۔کیا یہ تاریخ کاانمٹ نقش نہیں ہے کیا زندہ قومیں ایسے نقوش نئی نسل سے چھپاتی ہیں؟

جب سیاستدانوں کی مفادپرستی ‘ جرنیلوں کی ہوسِ اقتدار اور دشمن کی فوجوں نے مل کر ارضِ پاکستان کا مشرقی بازوکاٹ دیا تواس کے چند مہینے بعد اس زخم خوردہ ملّت کے مفکّرِ اعظم اقبال کا یوم ولادت تھا۔ حسب ِروایت لاہور کی سب سے بڑی تقریب یونیورسٹی ہال میں منعقد ہوئی۔ ہال لاہور کی اشرافیہ، پروفیسرز، ڈاکٹرز،وکلاء ،علماء اورطلباء سے کھچا کھچ بھراہوا تھا۔ مجلسِ اقبال کے سیکرٹری آغا شورش کاشمیری نے معروف شاعر مشیر کاظمی کو نظم پڑھنے کی دعوت دی جنہوں نے مائیک پرآتے ہی بتایا کہ میں آج صبح علامہ اقبال کے مزارپرپھول چڑھانے گیا تھا وہیں سے آرہا ہوں۔نظم کے پہلے دو شعروں پرہی سامعین تڑپ اٹھے اوردھاڑیں مارکررونے لگے نظم کے چند شعرسن لیجئے :



About the author

faheemqamar

i am a student of computer science

Subscribe 0
160