ٹوبہ میں ٹیکسٹائل صنعت کا عروج و زوال

Posted on at


ایک وقت تھا جب ٹوبہ ٹیک سنگھ کا شمار صنعتی میدان میں تیزی سے ترقی کرنے والے اضلاع میں ہوتا تھا۔اس کی تحصیل کمالیہ میں بننے والا کھدر اندرون ملک کے ساتھ ساتھ بنگلہ دیش اور بھارت میں بھی منفرد پہچان رکھتا تھا مگر اب ٹیکسٹائل کی صنعت رو بہ زوال ہے۔محکمہ شماریات کے مطابق 1990ء میں ضلع ٹوبہ میں لگ بھگ 95 ہزار پاور لومز موجود تھیں جن پر تیار کردہ کپڑا ملتان، فیصل آباد اور گوجرانوالہ سمیت دیگر چھوٹے بڑے شہروں میں بھیجا جاتا تھا۔اب صورِت حال یہ ہے کہ پیداواری لاگت میں اضافے اور بجلی و گیس کی بندش کے باعث تقریباً 75 ہزار سے زائد پاور لومز بند ہو چکی ہیں۔مذکورہ عشرے کے دوران پاور لومز کے ساتھ ساتھ ضلع میں تین بڑی ٹیکسٹائل ملیں لگائی گئی تھیں جو کہ لوڈ شیڈنگ، صاف پانی اور گیس مسیر نہ ہونے کی وجہ سے صرف 1 سے 2 سال چلنے کے بعد دس دس سال بند رہیں۔جبکہ ان میں سے اکاڈ ٹیکسٹائل (پیرمحل) اور عوامی ٹیکسٹائل (گوجرہ) فروخت کر دی گئیں۔نئی انتظامیہ نے مذکورہ ملیں اب دوبارہ چلائی ہیں مگر مالکان بجلی و گیس کی لوڈ شیڈنگ کے ہاتھوں پریشان نظر آتے ہیں۔اسی طرح ٹوبہ کی 8 جیننگ فیکٹریوں میں سے 4 لوڈشیڈنگ کی نذر ہو چکی ہیں۔واضح رہے کہ پاکستان ٹیکسٹائل مصنوعات برآمد کرنے والا ایشیا کا آٹھواں جبکہ چین اور بھارت کے بعد دھاگہ بنانے والا تیسرا بڑا ملک ہے مگر اس کے باوجود صنعتی برادری کو درپیش بے شمار مسائل ارباب اختیار کی توجہ کے منتظر ہیں

آل پاکستان ٹیکسٹائل ملز ایسوسی ایشن (اپٹما) کے سینئر رکن چوہدری محمد اسلم بھنگو نے سجاگ سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ اب ٹیکسٹائل صنعت ہی پاکستانی مشعیت کی ریڈھ کی ہڈی ہے تاہم حکومت اس سیکٹر کے مسائل حل کرنے میں بُری طرح ناکام رہی ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ ناقص پالیسیوں، بجلی و گیس کی قیمتوں میں مسلسل اضافے اور لوڈ شیڈنگ کے باعث یہاں کاروبار چلانا بہت مشکل ہو گیا ہے۔

"ٹیکسٹائل سیکٹر دن بدن رو بہ زوال ہے۔ پیداواری لاگت زیادہ ہے اور دھاگے کا ریٹ کم، جس سے ہمیں کچھ نہیں بچتا۔ ان حالات میں تنخواہوں کی ادائیگی اور بنکوں کی اقساط ادا کرنا مشکل ہو گیا ہے۔"

ان کے مطابق خام مال کی پیداواری قیمتوں میں اضافہ اور توانائی کے متبادل ذرائع استعمال ہونے سے لاگت زیادہ آتی ہے جبکہ عالمی منڈیوں میں مسابقت کے باعث منافع کم حاصل ہوتا ہے۔

انھوں نے مزید بتایا کہ محکمہ لیبر و انسانی وسائل اور ای او بی آئی کے افسران رشوت طلب کرتے ہیں۔ جب کسی طرف سے بھی سکون نہیں تو کاروبار کیسے کیا جا سکتا ہے؟

"یہ مایوس کُن ہے کہ لاکھوں افراد کو روزگار مہیا کرنے والی صنعت دیوالیہ ہو رہی ہے، چھوٹے صنعت کار اپنی پراپرٹی اور زیور بیچ کر کاروبار پر لگا رہے ہیں جبکہ بڑے مل مالکان اپنا سرمایہ بیرون ملک منتقل کر رہے ہیں۔

انھوں نے مطالبہ کیا کہ حکومت بحران زدہ ٹیکسٹائل صنعت کی ترقی میں حائل رکاوٹوں کے خاتمے کے لیے ترجیحی اقدامات کرے۔

صنعتی سرگرمیوں میں تیزی اور برآمدات کے فروغ کے لیے تاجروں کو خصوصی مراعات فراہم کی جائیں اور ٹیکسوں میں چھوٹ ملنی چاہیے۔

ان کا موقف ہے کہ توانائی بحران کا حل ڈھونڈے بغیر ملکی ترقی کا خواب پورا نہیں کیا جا سکتا ہے۔

ٹیکسٹائل صنعت کے فروغ سے نہ صرف معیشت کو استحکام ملے گا بلکہ زرمبادلہ کے ذخائر میں بھی خاطر خواہ اضافہ ہو گا۔



About the author

160