کاش میری ایک اور بیٹی ہوتی

Posted on at


عنوان:
"کاش میری ایک اور بیٹی ہوتی"

مبارک ہو بیٹی ہوئی ہے۔ نرس نے کمرے سے باہر آتے ہی اعلان کیا۔
اقبال کا دل ڈوب سا گیا۔ وہ اوپر سے ہشاش بشاش دکھائی دینے کی کوشش کر رہا تھا مگر اس کے اندر جیسے اندھیرا سا چھا گیا تھا۔ یہ تیسری لڑکی تھی۔ اسے بیٹے کی شدید خواہش تھی۔ دل ہی دل میں وہ سوچ رہا تھا ایک بیٹا ہوتا تو کم از کم بڑھاپا تو سکون سے گذر جاتا۔
وہ رو رو کر اللہ سے دعائیں مانگتا تھا کہ اس کے ہاں نرینہ اولاد ہو۔ کبھی کسی نیک آدمی سے ملتا تو اسے بھی اسی دعا کے لیے کہتا۔
آخر اللہ نے اسکی سن لی۔ دو سال بعد اس کے ہاں چاند سا بیٹا پیدا ہوا۔ جسکا نام اس نے جمال رکھا۔ اسکی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہیں تھا۔ ساری دنیا جیسے اسکے لیے رنگین ہو گئی تھی۔ گو کہ اس کا تعلق ایک متوسط طبقے سے تھا لیکن پھر بھی اپنی ہستی کے مطابق اس نے خوب جشن منایا۔
ماہ و سال گذرتے رہے۔ لڑکیوں اور جمال کے معاملے میں ہر ہر بات میں اقبال کا رویہ نہایت غیر منصفانہ رہا۔ بچیوں کو اس نے بس واجبی سی تعلیم دلوائی جبکہ لڑکے کو اعلٰی سے اعلٰی سکولوں میں۔ بڑھاپے کا سہارا جو بننا تھا اس نے۔ لڑکیاں بس عام سی زندگی گذارتی رہیں جبکہ جمال زندگی کی ہر آسائش کے مزے لوٹتا رہا۔ لڑکیاں بہت سمجھدار تھیں ایسا نہیں تھا کہ انہیں معلوم ہی نہ ہو کہ یہ سب کیا ہے۔ لیکن انہیں اپنے ماں باپ بھائی سے شدید محبت تھی۔ جمال پر ایسی عنایتوں نے اسے لابالی اور بے پرواہ سا کر دیا تھا۔ باپ کے ساتھ بھی اکثر اکھڑ سا ہو جاتا تھا لیکن اقبال نظر انداز کرتا رہا کہ بچہ ہے۔
وقت کے ساتھ ساتھ اقبال کے سارے بچے یکے بعد دیگرے جوانی کی دہلیز پار کرتے رہے۔ ان کی شادیاں ہوتی گئیں۔ سب سے آخر میں اس نے جمال کی شادی کی۔ چن کر چاند جیسی بہو لایا۔ لڑکیاں پہلے ہی اپنے گھروں کو سدھار چکی تھیں اور اپنے اپنے گھروں میں خوش تھیں۔ جیسی وہ متحمل اور بردبار تھیں اللہ کے فضل سے تینوں نے اپنے اپنے سسرال والوں کو اپنا گرویدہ کرلیا تھا۔
بڑھاپے نے اقبال کی ہڈیوں کو بھی چورا کر دیا تھا۔ تمام زندگی اس نے انتھک محنت کی تھی جسکی وجہ سے وہ وقت سے پہلے ہی بوڑھا ہو گیا تھا۔ جمال اب ایک بہت بڑی کمپنی میں انجینئر تھا۔ اور بہت ہی اچھی آمدنی تھی۔ اقبال کو وہ مقصد پورا ہوتا نظر آ رہا تھا جس کے لیے وہ بیٹے کی دعائیں مانگتا تھا۔ اقبال کو ایک ساتھ کئی بیماریوں نے آ لیا۔ اسے اب آئے روز مختلف ڈاکٹروں کے پاس چکر لگانے پڑتے تھے جو اس اکیلے کے بس کی بات نہیں تھی۔ تو جمال ہی پر اس کا تکیہ تھا۔ لیکن اسے اکثر ایسا محسوس ہوتا کہ جمال کو اس طرح اس کے ساتھ بندھے رہنا سخت ناگوار گذرتا ہے۔ کئی دفعہ اس نے اشاروں کنایوں میں اس بات کا اظہار بھی کیا۔ وہ ماں اور باپ دونوں سے نالاں ہی رہنے لگ گیا۔
پھر ایک دن اقبال اور اسکی بیوی نے ڈاکٹر کے پاس جانا تھا۔ جمال اپنے کمرے میں تیار ہو رہا تھا۔ کافی دیر گذر گئی تو اقبال اور اسکی بیوی ان کے کمرے کی ہی طرف چل دئے۔ کمرے میں سے اونچی اونچی آوازیں آ رہی تھیں۔ جمال اپنی بیوی سے کسی بات پر لڑ رہا تھا۔
تمہیں ان کے ساتھ مجھ سے زیادہ ہمدردی ہے کیا؟
جمال وہ بوڑھے ہیں ایسے وقت میں جوان اولاد ہی سہارا بنتی ہے۔ اسکی بیوی بولی
ارے چھوڑو کتنا کوئی سہارا بنے؟ اللہ ان کو پردہ ہی دے دے تو سب کے لیے اچھا ہے۔ صبح شام ان کی خدمت کروں یا اپنی زندگی بھی گذاروں۔ کیا میری اپنی کوئی زندگی نہیں؟
جمال بس بولے چلا جا رہا تھا۔ اقبال کے کان سن ہو رہے تھے۔ دماغ میں اندھیرا چھا رہا تھا۔ اس سے آگے جیسے اسے کچھ سنائی ہی نہ دیا۔ اسکی نظر اپنی بیوی پر پڑی تو وہ فرش پر گری ہوئی تھی۔ شائد اپنی کوکھ سے جنم دیئے بیٹے کے مونہہ سے یہ سب سن نہ پائی تھی۔ اقبال نے زور کی چیخ مار کر بیوی کو پکارا۔
ہسپتال لے جایا گیا لیکن وہ اس کے بعد نہ اٹھی۔ دوران خون کی مریضہ تھی۔ دوران خون اتنا اوپر چلا گیا کہ دماغ کی شریان ہی پھٹ گئی۔ اقبال کی دنیا ہی اندھیر ہو چکی تھی۔ صرف ایک ہی غمگسار تھی اسکی اس گھر میں۔ اس کی موت کے بعد اس نے جمال کو گھر سے نکال دیا۔ جب بیٹے کا آسرا ختم ہوا تو خود بخود اس کے اندر ہمت آ گئی۔ گو کہ یہ اسکے لیے بہت تکلیف دہ تھا مگر اس نے جہاں جانا ہوتا خود ہی چلا جاتا۔ اب وہ بیٹے کی شکل تک دیکھنے کا روادار نہ تھا۔
اسکی بیٹیاں باپ کی تکلیفوں پر سخت غمزدہ تھیں۔ ان میں سے کوئی نہ کوئی اسکے پاس آ موجود ہوتی۔ تیسری والی نے ضد کر کے اسے اپنے گھر کے ساتھ جڑا ہوا گھر لینے پر مجبور کیا۔
بابا آپ یہاں رہیں۔ میں آپ کو اکیلا نہیں چھوڑ سکتی۔ مجھے نیند نہیں آتی بابا آپ کا سوچ سوچ کے۔ وہ اس کو وقت پر کھانا کھلاتی۔ وقت پر دوائی کھلاتی۔ اسکا شوہر اسے ڈاکٹر کے پاس بھی لے جاتا اور اسکی تیوری پر بل تک نہ پڑتا۔ رات کو وہ باپ کے پاؤں دباتی اس کا سر سہلاتی۔ اس کو دوائی کھلاتے ہوئے ایک دن اس نے دیکھا تو باپ کی آنکھ سے آنسو رواں تھے۔ بابا کیا ماں کی یاد آ رہی ہے؟ اس نے محبت سے پوچھا
اقبال نے اسکی طرف دیکھا اور بولا نہیں بیٹی میں یہ سوچ رہا ہوں کہ جب تو پیدا ہوئی تھی تو میں نے مالک سے اس دن یہ دعا کیوں نہ مانگی کہ مجھے تیرے ہی جیسی ایک اور بیٹی عطا کرے۔ یہ کہہ کر وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا۔



About the author

Mangoshake

Open your eyes, look within. Are you satisfied with the life you’re living?

Subscribe 0
160