۱۹۴۳ میں مسلم لیگ کے ایک جلسہ عام میں خواتین نے اسٹیج پر زیورات لا کر ڈھیر کرنے شروع کیے تو قائد اعلظم نے کہا کہ ان زیورات کا حساب رکھنا مشکل ہے اسلیے مین زیورات کے چندے کو قبول نہیں کر سکتا قائد اعظم بالخصوص سرکاری اخراجات میں ٖفضول خرچی کے سخت خلاف تھے وہ سرکاری رہائشگاہ کی بتیاں خود بجھایا کرتے تھےایک مرتبہ انکے سیکرٹری نے کہا کہ سر آپ کے بتیاں بجھانے سے ہمیں بڑی شرمندگی ہوتی ہے تو قائد اعظم نے جواب دیا کہ روپیہ ضائع کرنا گناہ ہے اور اگر یہ قوم کا سرمایہ ہے تو یہ اور بھی بڑاگناہ ہے قائد اعظم اپنی ذاتی سہولت کے لیے سرکاری ذرائع سے خرچ کرنے کے خلاف تھے یہ دیانت و صداقت کے اصول پاکستان کے لیے تھے
لیکن آج جب ہم قائد کے افکار کا موجودہ حکمرانوں سے تقابل کرتے ہیں تو محسوس ہوتا ہے کہ قرض میں جکڑے ہوئے ملک میں سرکاری خزانے سے کروڑوں کی مالیت کی گاڑی کی خریداری اور سرکاری رہن سہن اور بیرونی دوروں پر اربوں کے اخراجات کرنا کوئی معنی نہیں رکھتا جب کے ملک بے پایاں قرضوں مین جکڑا ہوا ہے غیر ملکیوں کو بھی یہ دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ قرضون میں جکڑے ہوئے اس ملک کے حکمرانوں کی دولت کا کوئی شمار ہی نہیں اور اس نا جائز دولت کے انبار پر(این آر او) کا تڑکہ یکھ کر تو اغیار حیرانی کے عالم مین یہ کہنے سے بھی نہیں چوکتے کہ یہ قوم کل نہیں ڈوبی تو آج ڈوبے گی
پاکستان کے لیے قائد کی تعلیمات تو یہی تھین کہ صداقت اور دیانت کو ہمیشہ مدنظر رکھا جائے اور بے جا اسراف دے پہلو تہی کی جائے قائد اعظم نے اپنے ایک خطاب میں کہا کہ رشوت اور بدیانتی زہر کی مانند برصغیر کی بد ترین خرابیاں ہیں جہنیں آہنی ہاتھوں سے نمٹانا ہو گا آج پاکستان مین غزائی مواد کی ذخیرہ اندوزی کی جاتی ہے نا جائز طریقوں سے دولت کمائی جا رہی ہے کروڑوں کے قرضے معاف کرائے جا رہے ہین ان بداعمالیوں کا بوجھ ٹیکس اور ڈیوٹی کے نام پر غریب عوام کے سر ڈال دیا جاتا ہے
آج کے حکمرانوں کو بھی اپنی سوچ کے دھاروں کو کھولنا چاہیے اور ایک مرتبہ پھر صداقت اور دیانت کے اصولوں کو مدنظر رکھ کر پاکستان کے لیے اخلاص دل سے کام کرنا چاہیے