تجربہ اس بات کا شاہد ہے کہ کوئی چیز اس وقت تک کامل نہیں ہو سکتی جب تک اس کے تمام اجزا ہر لحاظ سے موزوں اور متناسب نہ ہوں انسانی تہذیب اور سوسائٹی بھی اس وقت تک پایہ تکمیل کو نہیں پہنچ سکتی جب تک اس کے دونوں اعضا یعنی مرد اور عورت مکمل نہ ہوں مرد یا عورت مکمل اس وقت کہلانے کا استحقاق رکھتے ہیں جب وہ صحیح معنوں میں تعلیم یافتہ ہوں کیونکہ تعلیم انسان میں ذہنی بلوغت پیدا کرتی ہےجس سے اچھے برے، نفع و نقصان اور جھوت سچ میں تمیز کی جاتی ہے۔لہذا علم حاصل کرنے کو ہر زمانہ میں تحسین کی نگاہوں سے دیکھا گیا ہے اور بڑے بڑے داناؤں اور دانشوروں نے علم حاصل کرنے پر زور دیا ہے جیسا کہ ایک حدیث میں ہے ‘‘ علم حاصل کرنا مرد اور عورت دونوں پر فرض ہے’’
عام طور پر کیا جاتا ہے کہ مرد اور عورت گاڑی کے دو پہئے ہیں اگر ایک پہیہ مضبوط اور پائیدار ہو اور دوسرا گھٹیا اور ناقص ہو تو گاڑی کبھی منزل مقصود پر نہیں پہنچتی لہذا گاڑی کو منزل مقصود پر پہنچانے کے لیے دونوں پہیوں کا مظبوط اور پائیدار ہونا ضروری ہے کیا کوئی عقلمند انسان یہ کہہ سکتا ہے کہ اگر پرندے کا ایک پر کاٹ دیا جائے تو وہ ہوا میں اڑتا پھرے گا بالکل یہی حال ہماری سوسائٹی کا ہے جب تک سوسائٹی کے دو بڑے اجزاء مرد اور عورت دونوں تعلیم یافتہ نہ ہوں گے تو سوسائٹی کبھی مہذب اور شائستہ نہیں کہلا سکتی۔نپولین کا قول ہے ‘‘ بہترین مائیں بہترین بچے پیدا کرتی ہیں۔’’ ماں دراصل بچوں کی پہلی اتالیق ہوتی ہے جو کچھ بچے ماں کی گود میں سیکھ لیتے ہیں وہ ان کے معصوم دلوں پر ہمیشہ کے لیے نقش ہو جاتا ہے ان کی اچھی تعلیم و تربیت کا انحصار ماں پر ہے اگر ماں تعلیم یافتہ ہو گی تو بچوں کی عمدہ تعلیم وتربیت کر سکے گی یہی بچے جوان ہو کر ملک و ملت کے لیے مایہ ناز ہستیاں بن سکیں گے ایسے بچے ہی عالی دماغ، روشن ضمیر، جواں ہمت اور دہن و فطین ہوں گے۔
پچاس ساٹھ سال پہلے تک عورتوں کو تعلیم دلانا گناہ سمجھا جاتا تھا وجہ یہ تھی کہ علم کا چرچا عام نہ تھا لوگ بہت کم لیکھے پڑھے ہوتے تھے اور ان کا خیال تھا کہ تعلیم حاصل کرنے سے عورت آزاد اور بے راہ رو ہو جاتی ہے علاوہ اازیں چونکہ وہ کمانے کے قابل ہو جاتی ہے اسلیے وہ اپنے خاندان کی وفا شعار بیوی ثابت نہیں ہو سکتی کیونکہ اس میں کسی کا سہارا چاہنے کی آرزو ختم ہو جاتی ہے۔دراصل یہ خیالات و جذبات ان لوگوں کے ہیں جو تعلیم اور اس کی افادیت سے بے خبر ہیں جو عورت کو ہمیشہ جاہل اور محکوم دیکھنے کے خواہشمند ہیں۔ یہ سب ان کا تعصب خود غرضی اور تنگ نظری ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ تعلیم حاصل کرنے سے عورت میں نہ صرف تہذیب پیدا ہوتی ہے بلکہ اس کی ادراکی قوتوں کو جلا ملتی ہے اور سلیقہ شعار انسان بننے کے ساتھ ساتھ اپنے خاوند کے مرتبے کو اچھی طرح پہچانتی ہے۔گھر کا کام احسن طریقے سے چلانے کے لیے بھی تو تعلیم کی ضرورت ہے اگر وہ تعلیم حاصل نہ کرے گی تو گھر کا کام، حساب کتاب، لین دین اور بچوں کی تعلیم و پرورش جیسے اہم کام کس طرح سر انجام دے گی؟ یہ ضروری نہیں کہ عورتیں ڈاکٹر یا انجینئر بنیں۔ سائنس کی اعلی تعلیم حاصل کرنا ان کی اپنی مرضی پر منحصر ہے مگر عورتوں کو گھر بار کے کاموں کی تعلیم حاصل کرنا نہایت ضروری ہے مثلا
مذہبی تعلیم:ـ
عورتوں کو مردوں سے زیادہ مذہب سے لگاؤ ہوتا ہے اسلیے اگر انہیں باقاعدہ مذہبی عمدہ طریقے سے مذہب کی ابتدائی تعلیم دے سکتی ہے اور جو بچپن سے ہی مذہبی خیالات کو اپنالیں گے وہ زندگی میں کبھی بھی گمراہ نہیں ہوں گے۔ علاوہ ازیں مذہب سے واقفیت کی بنا پرعورتیں توہمات اور جاہلانہ رسوم کا شکار ہونے سے بچ جاتی ہیں۔
علم حساب:ـ
گھر کا تمام خرچ عورت کے ہاتھ میں ہوتا ہے اگر علم حساب سے واقف نہ ہو تو گھر کا سارا نظام درہم برہم ہو جائے گا ہر چیز کا حساب نہ رکھنے حساب نہ رکھنے سے مہینے کی پندرہ تاریخ تک ہی گھر کا دیوالیہ نکل جائے گا۔ فضول خرچی بڑھ جائے گی لین دین کے معاملے میں وہ مردوں سے دوکھہ کھا جائے گی۔ شادی بیاہ کے موقعوں پر عورتوں ہزاروں روپے اپنے ہاتھوں سے خرچ کرتی ہیں اگر وہ علم حساب سے واقف نہ ہوں تو قدم قدم پر وقت کا سامنا ہو گا۔ علم حساب سے عورتوں میں محنت، کفیت شعاری اور سوچ سمجھ کر کام کرنے کی عادت پیدا ہو جاتی ہے۔
امور خانہ داری:ـ
گھر میں عورت کا کام سینا پرونا، کھان پکانا، بچوں کی پرورش اور گھر کی دیکھ بھال ہے۔ جس قدر کوئی عورت ان کاموں میں سلیقہ اور مہارت رکھتی ہو گی اتنا ہی اس کا گھر صاف ستھرا اور خوبصورت ہوگا یہ سب کام امور خانہ داری کی تعلیم سے حاصل ہوتے ہیں ۔
حفظان صحت :
جب تک عورتیں خود حفظان صحت کے اصولوں سے واقف نہ ہوں گی وہ بچوں کی صحت کی کبھی دیکھ بھال نہ کر سکیں گی۔ نہ انہیں گھر کی صفائی ہی کا کوئی احساس ہو گا بعض دفعہ یہ ہوتا ہے کہ ماں کی معمولی سی بےاحتیاطی سے بچے کو ساری عمر کا روگ لگ جاتا ہے۔ لہذا عورتوں کو حفظان صحت کے اصولوں سے واقفیت ہونی چاہیے تاکہ وہ گھر کے برتنوں، پینے کا پانی، کمروں، صحن، باورچی خانہ اور دیگر چیزوں کو صاف ستھرا رکھ سکیں۔ اور بیماری سے بچاؤ کی تدابیر کر سکیں۔ان دلائل کی روشنی میں کہا جا سکتا ہے کہ تعلیم نسواں بے حد ضرورت ہے اس کے ذریعے نہ صرف ملک کی ترقی، قوم کی خوشحالی اور معاشرے کی بہتری کا کام لیا جا سکتا ہے بلکہ آنے والی نسلوں کی بہبودی کی ضمانت بھی مل سکتی ہے۔