بچے قوم کا مستقبل ہیں

Posted on at


ہر قوم کی امیدوں کا صحیح مرکز نہ اس کے سائنس دان ہوتے ہیں نہ سیاست دان ادیب ہوتے ہیں نہ فلسفی، بلکہ یہ اس کے بچے ہوتے ہیں۔ ہر قوم ایک باب کی طرح اپنی تشنہ خواہشات کی تکمیل اپنے بچوں میں ہوتی دیکھنا چاہتی ہے کیونکہ یہ بچے ہی ہیں جو اس وقت ملک اور تہذیب و تمدن کی حفاظت کریں گے، جب ہم بوڑھے اور ضعیف ہو چکے ہوں گے۔ پاکستان کے سامنے ہر دوسرے ملک کی طرح سب سے اہم مسئلہ اپنے بچوں کی صحیح تعلیم و تربیت کا ہے۔ مگر ابھی تک پاکستان کی کوئی حکومت بھی واضح طور پر یہ پروگرام نہیں دے سکی کہ بچوں کی تعلیم وتربیت کس قسم کی ہونی چاہیے۔ہٹلر جرمن قوم کو دنیا کی بہترین قوم منوانے کا نصب العین پیش نظر رکھتا تھا۔ اس نے اس مقصد کے لیے ایک لائحہ عمل تیار کیا۔



وہ ہزاروں صحت مند نوجوان لڑکیوں کے سامنے تقاریر کر کے انہیں زیادہ سے زیادہ صحت مند اور اولاد پیدا کرنے کے لیے کہا کرتا تھا۔ وہ اپنےاس مقصد میں کامیاب رہا۔ جرمن قوم نے میدان جنگ میں ثابت کر سیا کہ کس طرح اس کا ایک ایک سپاہی خود اعتمادی کے لحاظ سے ایک فوج سے کم نہیں۔  ہٹلر نے بچوں کی تعلیم وتربیت کے لیے تمام ممکن ذرائع استعمال کیے وہی بچے آج جرمن کو پھر سے نئی زندگی دینے کی فکر میں ہیں۔



ہمارے ملک کے بچوں کے سامنے کوئی نصب العین نہیں۔ وہ گلی کوچوں اور سکولوں کالجوں میں یکساں طور پر تباہ و برباد ہو رہے ہیں ہماری قوم ایک فوجی قوم ہے ہم دنیا کے ہر میدان میں فاتح اور کامران ہونے کی صلاحیت رکھتے ہیں، اگر کوئی ادارہ ہماری صلاحیت کو بروئے کار لا نے کے مواقع فراہم کرنے کے لیے تیار نہیں۔ ہمارے بچوں کو ناقص تعلیم دی جاتی ہے۔ اکثر گھروں میں والدین بچوں سے جانوروں کا سا سلوک کرتے ہیں، بات بات پر مار پیٹ اور گالی گلوچ ان کے لیے معمولی بات ہے۔ اس مار پیٹ اور گالی گلوچ کا ایک خوفناک اور مہلک نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ بچے خود اعتمادی اور عزت نفس کی سی خصوصیات سے عمر کے ابتدائی حصے میں ہی محراوم ہو جاتے ہیں۔ یا ان میں نفرت کا درجہ اتنا زیادہ شدید ہو جاتا ہے کہ وہ بالغ ہونے سے پہلے ہی مجرمانہ افعال کو مرتکب ہونے لگتے ہیں۔ سکول میں اساتذہ کو مار پیٹ اور گالی گلوچ کے سوا اور کچھ نہیں آتا۔ وہ کبھی کسی لڑکے کو آبرو مندانہ انداز میں نہیں بلاتے۔ اسطرح ہمارے بچوں کا مستقبل اور اس ک ساتھ ملک و قوم کی امیدیں تاریکی کے گڑھے میں جا گرتی ہے۔



ہماری خوراک کی ہر چیز میں ملاوٹ ہے۔ ایسی خوراک کھانے کے بعد ہمارے بچوں کی نشونما کیا ہو گی۔ ۹۹ فیصد بچوں کو کم اور غلط خوراک میسرآتی ہے۔ کوئی اکا دکا بچہ چھوڑ کر ہر بچے کا وزن عمر کے اعتبار سے کم ہوتا ہے۔ شائد ہی کوئی بچہ ہو جس کے گالوں پر صحت کی سرخی ہو۔  ان بچوں کے کھیلنے کودنے کے لیے کوئی خاص میدان نہیں ہیں۔ وہ گلیوں کی گندی اور تنگ فضا میں کھیلنے پر مجبور ہیں۔ بچوں کو نہ گھر پر حفظان صحت کے اصولوں سے آگاہ کیا جاتا ہے اور نہ سکولوں میں۔ اگر کسی سکول میں کوئی ایسی بات ہے بھی تو ان بچوں کے سامنے زندگی کا کوئی مقصد نہیں رکاھا جاتا۔ انہیں ہر گز نہ بتایا جاتا کہ ان میں سے کسی بچے کو کون سا کام اپنانا چاہیے۔ان کے سامنے نہ ملک و قوم کے تقاضے ہوتے ہیں نہ دوسری قوموں اور ملکوں کے حالات یہ بچے جس تاریکی میں پیدا ہوتے ہیں اسی تاریکی میں مر جاتے ہیں ۔



ہمارے اکثر معصوم بچے غیر شریفانہ زندگی بسر کرنے والے لوگوں کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں۔ وہ انہیں سبز باغ دکھا کر ان سے مجرما نہ کام کرواتے ہیں ان بچوں کو جو فلمیں دیکھنے کو اور اخلاق سوز ادب پڑھنے کے لیے دیا جاتا ہے وہ ان کے لیے زیر ہلاہل ہے اکثر ولدین لاڈ پیار کی آڑ میں اپنے بچوں کو کسی قسم کا سخت کام نہیں کرنے دیتے۔ یہ بچے بڑھے ہو کر مصیبت کے وقت کسی قسم کی قوت برداشت کا مظاہرہ نہیں کرتے۔ اگر کوئی استاد کسی بچے کو کام نہ کرنے پر سزا دے تو اس کے والدین اس کے خلاف احتجاج کرتے ہیں۔ بعض طالب علم اپنے غنڈے سرپرستو ں کو اپنے درسگاہوں میں لاکر اساتذہ کو مرعوب کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔والدین کی روش اور ملک کی عام فضا سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ بچوں میں ذمہ داری کا احساس پیدا کرنے کی بجائے انہین اول درجے کے غیر ذمہ دار انسان بنایا جا رہا ہے اگر وہ اپنی ذمہ داری کو محسوس کرنے لگیں تو کمرہ امتحان میں پستول نکال کر میز پر رکھنے کے بجائے سال بھر آوارہ گردی کو ترک کر کے مطالعہ کریں۔



ہمارے بچوں کا مستقبل تاریک ہو ریا ہے، کیونکہ آج کل لوگ تعلیم کو کاروباری چیز سمجھنے لگے ہیں۔ تقریبا ہر لڑکے کے ذہن میں یہ بات پیدا کر جاتی ہے کہ غلط ذرائع سے امتحان پاس کیا جاسکتا ہے۔ وہ محنت سے بھا گنے لگتے ہیں۔ وہ خواہ امتحان میں پاس ہی ہو جائیں ان میں محنت کرنے کی ہمت نہیں پیدا ہوتی۔ ایسے بچے زندگی کے ہر شعبے میں بھی کامیاب نہیں ہو سکتے۔ دشمن ممالک کا مقابلہ کرنا بڑی بات ہے۔ ایسے بچے مستقبل کے شہری بن کر دفتروں کے کامیاب بھی نہ بن سکیں گے۔ یورپین ممالک بچوں کی دیکھ بھال اور پرورش کے مسئلے پر بے حساب روپیہ خرچ کررہے ہیں بڑے بڑے اعلی دماغ ان کے کے متعلق سوچ و بچار کر کے اپنے بہترین نتائج بچوں کی پرورش پر صرف کرتے ہیں۔ مگر ہم نے اپنے مستقبل کے معماروں کے متعلق کبھی نہیں سوچا نہ جانتے ہیں اپنے بچوں کی عظمت و اہمیت کا حساس کب ہو گا




About the author

Asmi-love

I am blogger at filmannex and i am very happy because it is a matter of pride for me that i am a part of filmannex.

Subscribe 0
160