بچے کی پرورش ماں باپ کی مشترکہ زمہداری

Posted on at


 

عام طور پر ہمارے معاشرے میں مرد و عورت کے فرائض کو بڑے آسان اور واضح فارمولے کے تحت متعین کر دیا گیا ہے کہ مردکافرض محنت کر کے پیسے کمانا اور گھریلو اخراجات کو پورا کرنا ہےعورت پر گھریلو امور اور بچوں کی پرورش و تربیت کی زمہداری ہوتی ہے مرد حضرات کو اس سے کوئی سروکار نہیں کہ عورت کو ان فرائض کی ادائیگی میں کن مشکلات کا سامنا ہے ان کے خیال میں سب سے مشکل کام روپیہ پیسہ کمانا ہے جس کے لیے انہوں نے صبح سے شام تک گرمی سردی کی پرواہ کیے بغیر محنت کرنا پڑتی ہے

اگر دیکھا جائے تو اس تیز رفتار دور میں بہتر ضروریات زندگی کے حصول کے لیے مرد کو زیادہ تگ و دوکرنا پڑتی ہے مگر بچوں کی تعلیم و تربیت ایک اکیلی عورت کی زمہداری ہے اگر بچوں کی تعداد چار سے زیادہ ہو جو ہمارے ملک پاکستان کے اکثر گھروں آٹھ تک ہے تو ایسے حالات میں وہ کس طرح اپنے فرائض پر پورا اترے گی عورت کو مرد کے مالی تعاون کے علاوہ بچوں کے بہتر مستقبل کےلیے ہر قدم پر اس کی ضرورت ہوتی ہے  مگر ہمارے یہاں بچوں کے تمام مسائل تنہا عورت کو حل کرنا پڑتے ہیں اور اگر بچوں کی تعلیم و تربیت میں کوئی کمی ہو جائے تو اسکا زمہدار عورت کو ہی ٹھہرایا جاتا ہے

آجکل والدین بچوں کو سکول بھیج کر یا کوئی اچھی ٹیویشن رکھوا کر اپنی زمہداری سے سبکدوش ہو جاتے ہین انہین بچوں کے مسائل اور تعلیمی سرگرمیوں سے کوئی غرض نہیں رہتا لیکن یہ ایک تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ اچھی تربیت کے بغیر ہر قسم کی تعلیم بےکار ہے کیونکہ سکولوں ٹیوشن سنٹروں میں بچوں کو صرف تعلیم دی جاتی ہے مگر اصل تربیت کا اہتمام گھروں میں ہوتا ہے بچہ جو کچھ گھر میں پڑتا ہے اس پر عمل کرنے کے لیے گھر اور معاشرہ فضا ہموار کرتا ہے ہمارے ملک میں تعلیمی معیار کافی بہتر ہو رہا ہے مگر اخلاقی اور معاشرتی اعتبار سے تنزل کا شکار ہے

ایسے میں والدین کو باہم مل کر بچوں کی تربیت کا اہتمام کریں اور خود عملی زندگی میں اچھے اخلاق کا مظاہرہ کریں



About the author

sss-khan

my name is sss khan

Subscribe 0
160