عورت کے معاملے میں نقطہ عدل کو پانا، اسے سمجھنا اور اس پر قائم رہنا انسان کے لیے بہت دشوار ثابت ہوا ہے۔ بعض حضرات اسے پاوٗں کی جوتی سمجھ بیٹھے اور بعض حضرات نے دہشت سے پھٹی ہوئی آنکھوں کے ساتھ فرنگی عورتوں کی زینت وآرائش اور ان کی آزادانہ نقل و حرکت اور فرنگی معاشرت میں ان کی سرگرمیوں کو دیکھا تو اضطراری طور پر ان کے دلوں میں یہ تمنا پیدا ہوئی کہ کاش ہماری عورتیں بھی اس روش پر چلیں۔ انیسویں صدی کے آخری زمانے میں آزادی نسواں کی جو تحریک مسلمانوں میں پیدا ہوئی ہیں اس کے اصل محرک یہی جذبات اور رجحانات تھے۔
پھر بے لگام آزادی کا نتیجہ یہ نکلا کہ عورت چراغ خانہ سے چراغ محفل بن کر رہ گئی۔ تھیٹروں میں رقص گاہوں میں اور فلم سازی کے مرکز میں سارے کاروبار کا مدارہی اس پر قائم پایا کہ خوب صورت عورتوں کی خدمات حاصل کی جائیں اور ان کو زیادہ سے زیادہ ہیجان انگیز صورت میں منظر عام پر پیش کیا جائے۔ عورت کو ایک نہایت منظّم طریقے سے بین الا قوامی تجارت کی حد تک پہنچا دیا۔
زینت و آرائش کے عجیب و غریب سامان نکالے اور ان کو خوب پھیلایا تا کہ عورتوں کے پیدائش جذبہ حسن آرائی کو بڑھا کر دیوانگی تک پہنچا دیں اور اس طرح سے دونوں ہاتھوں سے دولت سمیٹیں کچھ لوگوں نے اس طرح کے عریانی فیشن نکالے پھر خوبصورت عورتوں کو ماڈلنگ پر مقرر کیا تاکہ نوجوان لڑ کیوں میں ان لباس کو پہننے کا شوق پیدا ہو اور اس طرح موجد لباس کی تجارت فروغ پا ئے۔
رفتہ رفتہ نوبت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ مشکل سے ہی تجارت کا کوئی شعبہ ایسا رہ گیا ہے کہ جس میں عورت کو استعمال نہ کیا گیا ہو۔ عورت کے بغیر اب کوئی اشتہار ہی نہیں ہو سکتا۔ بیشتر کاموں میں عورت کی نمودو نمائش کو اب ضروری سمجھا گیا ہے اور اسے ہر میدان میں آگے رکھ کر استعمال کیا گیا ہے۔
رائیٹر: عافیہ حرا