والدین ایک عظیم نعمت اور رحمت

Posted on at


 


کیا خوب لکھا ہے کسی لکھنے والے نے ۔


کہتا ہے جب بچپن میں مجھے ابّا جان مجھے مارتے تھے تو امّی جان مجھے بچا لیتی تھیں۔ پھر میں نے ایک دن سوچا کیوں نہ دیکھا جائے کہ امّی جان اگر ماریں مجھے تو ابّا جان کیا کرتے ہیں۔ ایسا کرنے کے لئے میں نے امّی کا کہا نہ مانا انہوں نے مجھے بازار سے کچھ سامان لانےکو کہا میں نے انکار کر دیا۔ پھر کھانے کے وقت انہوں نے مجھے سالن دیا تو میں نے زیادہ کا اصرار کیا۔ انہوں نے کہا کہ بیٹا اوپر بیٹھو میں نیچے زمین پر بیٹھ گیا اپنے کپڑے تک خراب کر لئے۔ میرا لہجہ بھی گستاخانہ تھا۔ مجھے پوری امید تھی۔ کہ اب وہ مجھے ماریں گی لیکن میری توقع سے بالکل برعکس۔ انہوں نے مجھے زمین سے اٹھا کر گلے لگایا۔ اور کہا کیوں‘‘ بیٹا ماں صدقے جائے’’۔ بیمار تو نہیں۔ یہ سب دیکھنے کے بعد میرے آنسو تھے کہ تھمنے کا نام نہ لیتے تھے۔ یہ ہوتی ہے ماں۔


یہ خدا تعالیٰ کی سب سے بڑی نعمت ہے ہمارے لئے۔ ایک بچے کو اس دنیا میں لانا اور پھر اسے اس زمانے میں رہنے کی تمام تر چیزیں طریقے ، تہزیب سکھانا۔ اس کے لئے زمانے بھر کی تکلیفیں برداشت کرنی۔ اس لیے تو کہتےہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ماں کے قدموں تلے جنت رکھی ہے۔ اگر ہم ساری زندگی بھی اپنی ماں کی خدمت کرتے رہیں تو ہم اس کی ایک آہ کا بھی بدلہ نہ لوٹا سکیں گے۔ جو اس نے ہماری پیدائش کے وقت بھری تھی۔ اور کہتے ہیں کہ باپ کی ناراضگی خدا کی ناراضگی ہے اگر ہمارے والدین ہم سے راضی اور خوش ہیں تو پھر خدا کی ذات بھی ہم سے راضی ہے۔


ایک طرف تو ہماری ماں کی گود ہماری پہلی درسگاہ بنتی ہے دوسری طرف پاپ ہمیں انگلی پکڑ کر چلنا سکھاتا ہے۔ ہماری چھوٹی سے چھوٹی خواہش پوری کرنے کے لئے اپنی جان تک کی بازی لگا دیتا ہے خود تو بھوک برداشت کرلیتا ہے۔ لیکن اپنی اولاد ہر وہ جائز خواہش پوری کرتا ہے جو اس کے منہ سے نکلتی ہے۔


اپنی ساری زندگی ہم پر قربان کرنے کے بعد جب وہ بڑھاپے میں پہنچ جاتے ہیں تو پھر اولاد کا فرض بنتا ہے کہ ان کی ہر طرح کی خدمت کرے نہ کہ انہیں بڑھاپے میں چھوڑ کر خود اپنی زندگی گزارے۔ اللہ رب العزت نے دنیا میں ہر چیز کا نعم البدل رکھا ہے لیکن والدین کا کوئی نعم البدل نہیں ہے یہ ایک ایسی عظیم نعمت اور رحمت ہے۔ جس کا احساس ہمیں تب ہوتا ہے جب یہ ہم سے بچھڑ جاتے ہیں۔


اللہ تعالیٰ سب کے والدین کو تاحیات قائم رکھے! (ٓآمین)۔



About the author

160