اسلام میں عورت کے حقوق

Posted on at


مذہب اسلام میں صنف کی بنیاد پر مرد اور عورت کے مابین کوئی فرق نہیں ہے۔ دونوں کو اللہ تعالیٰ نے حقوق اور ذمہ داریاں عطا کی ہیں۔چونکہ دونوں صنفوں کی جسمانی ساخت مختلف ہے۔ لہٰذا اس کے مطابق چند ذمہ داریوں کی بجا آوری میں فرق رکھا ہے ورنہ تو دونوں صنفوں کو اللہ تعالیٰ نے برابر رکھا ہوا ہے۔ قرآن میں بھی اس بات کی وضاحت کچھ اس طرح سے کی گئی ہے "سچے اور ایماندار مرد اور عورتیں ایک دوسرے کے برابر کے دوست ہیں۔ جو حلال ہے ان کی یہ ہدایت کرتے ہیں اور جو حرام ہیں ان سے منع کرتے ہیں۔ یہ اپنی نمازیں پڑھتے ہیں ، زکٰواۃ دیتے ہیں اور اللہ اور اس کے نبی کی اطاعت کرتے ہیں۔ ان پر اللہ کا رحم ہو گا وہ طاقتور اور دانا ہے"۔ قرآن کریم کی ایک صورت آل عمران میں ایک اور جگ ارشاد ہوتا ہے۔" میں کسی مرد اور عورت کو اس کی محنت کا صلہ دینے سے انکار نہیں کروں گا۔ تم ایک دوسرے کی پیداوار ہوں"۔

اسلام کی ان ہی تعلیمات کی وجہ سے ہم دیکھتے ہیں کہ حضورؐ کے دور میں خواتین مذہبی اور دنیاوی دونوں قسم کی تعلیم حاصل کر رہی تھی ۔اس بات سے ہم پر یہ لازم ہوجاتا ہے کہ ہم اپنے معاشرے میں عورت کی اہمیت کو پہچانیں اور اس مرد کے برابر تعلیم سے آراستہ  کریں  چاہے وہ دنیاوی تعلیم ہو یا دینی ۔ اور حضورؐ کے دور میں عورتیں مرد کے شانہ بشانہ کھیتی باڑی، کاروبار اور دوسرے ذرائع روزگار میں سرگرم عمل تھیں۔ اس وقت عورتوں نے غزوات میں بھی صحابہ کا ہا تھ بٹایا اور زخمیوں کی تیمارداری بھی کی۔ یہاں سےپتہ چلتا ہے کہ عورت کمزور نہیں ہے اور ہر کام مرد کے شانہ بشانہ کر سکتی ہیں، اس لیے معاشرے میں خواتین  پر ملازمت کرنے کی پابندی لگانا بھی بالکل نا جائز ہے۔

امام بن قیم نے مسلمان مردوں اور خواتیں کی ایک فہرست تیار کی۔ اس پر نظر ٖڈالنے سے پتہ چلتا ہے کہ بہت سے نام  خواتین ماہر قوانین کے بھی ہیں۔ یعنی عورتیں کسی بھی معاملے میں مرد سے کم نہیں ہیں ۔ آج بھی اگر ہم اپنے اردگرد نظر دوڑائیں تو ہمیں بہت سی ایسی خوتین ملے گی جنہوں نے تاریخی کارنامے سرانجام دے کر اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔ ذیادہ دور جانے کی بجائے اگر ہم اپنے ملک کی لڑکی ملالہ یوسف زئی کی تعلیم نسواں کے لیے خدمات اور قربانیوں کا مطالعہ کریں تو ہم پر یہ بات عیاں ہو جاتی ہے کہ عورت  بہت سے قابل قدر کام سرانجام دے سکتی ہے۔

اسلامی تاریخ کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ خواتین نہ صرف تعلیم حاصل کرنے اور مختلف شعبے اپنانے میں آزاد تھیں۔ بلکہ ان کو اہم سرکاری عہدوں پر بھی تعینات کیا جاتا تھا۔ اس سلسلے میں سب سے اہم مثال شفہ بنت عبداللہ کی جاسکتی ہے ۔ جس کو خلیفہ دوم حضرت عمر  نے پرائس کنٹرول آفیسر مقر ر کیا۔

اسلام کی روح سے عور ت کی اپنی ایک انفرادی حیثیت ہے۔ ان کو مردوں کے برابر مذہبی و دنیاوی تعلیم حاصل کرنے، حصول روزگار، کاروبار چلانے، کسی چیز کی ملکیت حاصل کرنے اور اس سے فائدہ حاصل کرنے اور کسی چیز میں اپنی صلاحیتوں کو منوانے کی بھر پور آزادی دی گئی ہے۔ بلکہ بعض چیزوں میں تو عورتوں کو مردوں سے ذیادہ حقوق دیے گئے ہیں۔ مثال کے طور پر اسلام کی رو سے گھر کا خرچ چلانا مردوں کی ذمہ داری ہے، خواتین کی نہیں۔ یہ خواتین کا قانونی حق بنتا ہے کہ اگر اس کے گھر کے خرچے کا انتظام نہیں کیا جاتا تو وہ اپنے قریبی رشتہ داروں کے خلاف عدالت سے رجوع کر سکتی ہے۔ اگر خرچ دینے والا کوئی قریبی رشتہ دار نہیں تو اس کے گھر کے خرچ کی ذمہ داری حکومت اسلامی کی ہے کہ وہ اسے تمام اشیائے ضرورت مہیا کرے۔ اس طرح دیکھا جاسکتا ہے کہ ایک صحیح اسلامی معاشرے اور حکومت میں خواتین کو بہتر مقام بخشا گیا ہے۔

 



About the author

shahzad-ahmed-6415

I am a student of Bsc Agricultural scinece .I am from Pakistan. I belong to Haripur.

Subscribe 0
160