ڈوبتا سورج(سچائی)

Posted on at


سرخ شعاعیں دن کے وقت حکمرانی کرنے والے آفتاب کے زوال کو ظاہر کر رہی تھیں۔ تھکے ہارے کسان کھیتوں سے واپس گھروں کو جا رہے تھے۔ مطلع صاف تھا۔ مگر کبھی کبھار اڑتے پرندے آسمان کو سیاہ کرنے کی کوشش میں مگن تھے۔

غروب آفتاب کے منظر میں ڈوبی زلیخا اپنی سوچوں میں خواہشوں کے محلات تعمیر کر رہی تھی۔ وہ جانتی تھی کہ ٹوٹے ہوۓ خواب اور بکھرے ہوۓ لوگ کبھی نہیں جھڑتے لیکن اسے یقین تھا کہ اس کے ٹوٹے ہوۓ خوابوں کی کرچیوں سے نئے موسم کا پہلا پھول اپنی پوری بہار کے ساتھ کھلے گا۔

ماں بننے کی خواہش زلیخا کو کب سے تھی مگر اس کے مقدر میں ابھی تک ماں بننا نہیں لکھا تھا۔ وہ چاہتی تھی کہ ایک نئے موسم کی بہار اس کے وجود کو مہکادے اور اس کی آنکھیں چوم کر اپنی زندگی محبت کی روشنی سے بھر دیں۔ یہی وہ خواہش تھی جس نے زلیخا کو مجبور کیا تھا۔ کہ وہ ڈوبتے سورج کے منظر کو دیکھ کر خواہشوں کے محلات تعمیر کرے۔ یہی وہ امید تھی جو زلیخا کو نا امید کرنے پہ تلی ہوئی تھی۔ ڈوبتے سورج کو دیکھ کر اسے امید رہی کہ نیا سورج ضرور اسکے لیئے خوشخبری لے کر آۓ گا۔

چند ماہ بعد جب اپنے چاند کو وقت کی اوٹ سے ابھرتے ہوۓ دیکھ لیا۔ تو اس کے آنگن کا موسم بدل چکا تھا۔ جب اس کے آنکھوں میں اعتبار کے پھول کھلنے لگے تو اس نے اپنے آسماں سے کہاں آؤ کسی خوب صورت زمین پر بیٹھ کر اپنے چاند سے باتیں کریں۔

انتظار کی گھڑیاں ختم ہو گئی تھیں۔ اسے یوں لگا جیسے لمحہ بھر کے لیئے وہ آسماں پر تھیں۔ کیونکہ زمین پہ بسنے والوں کو اتنی خوشیاں کہاں ملتی ہیں۔ اپنے چاند کو سینے سے لگاتے وہ کبھی کبھار خود کو بھول جاتی تھیں۔ آخر امانت ہی نے تو اسے زندگی بخشی تھیں ورنہ اپنوں نے اس پہ زمین کب سے تنگ کی ہوئی تھی۔



About the author

hadilove

i am syed hidayatullah.i have done msc in mathematics from pakistan.And now i am a bloger at filmannex.and feeling great

Subscribe 0
160