پاکستان اور بھارت کے مابین تعلقات

Posted on at


قیام پاکستان سے لے کر آج تک پاکستان اور بھارت کے تعلقات خوشگوار خطوط پر استوار  نہیں ہوسکے۔ دونوں ممالک کے درمیان مسئلہ کشمیر وجہ تنازعہ ہے۔ اس پر اب تک تین جنگیں 1948ء ، 1965ء اور1971ء میں ہو چکی ہیں۔قیام پاکستان کے وقت بھارت نےپاکستان کے لیے کئی مسائل پیدا کیے۔



  پاکستان اور بھارت کے درمیان 1960ء میںپانی کے مسئلے کے حل کے لیے سندھ طاس معاہدے پر دستخط ہوئے۔عالمی بینک اور دیگر ممالک کی مدد سے منصوبہ پایہ تکمیل تک پہنچا، لیکن بھارت نے اپنے حصے کی رقم دینے سے انکار کر دیا۔



بھارت نے1971ء میں مشرقی پاکستان میں علیحدگی پسند عناصر کی مدد کی جس کی وجہ سے بنگلہ دیش وجود میں آیا ۔اس کے بعد پاکستان اور بھارت کے درمیان شملہ کےمقا م پر ایک معاہدہ ہوا  جسے شملہ معاہدہ کہتے ہیں۔اس معاہدے کی رو سے پاکستان اور بھارت نے اپنے  اختلافات کو مذاکرات کے زریعے حل کرنے کا  اعلان کیا۔



شملہ معاہدہ سے پاکستان اور بھارت کے تعلقات میں کچھ بہتری آئی اورمحدود پیمانے پر تجارت اور مسافروں کی آمدورفت شروع ہو گئ۔اس کے علاوہ 1980ءمیں جنوبی ایشیا کی علاقائی تعاون کی تنظیم''سارک'' کے دئرہ میں دونوں ملکوں میں تعاون بڑھانے کی کوشش کی گئ، جس کا خاطر خواہ  نتیجہ نہ نکل سکا۔ پاکستان ہمیشہ سے اختلافی  امور کو حل کرنے کے لیے بھارت کو مذاکرات کی دعوت پر زور دیتا ہے لیکن بھارت نے ہمیشہ ٹال مٹول سے کام لیا ہے۔



 ”سارک کانفرس1988ء کے مو قع پر پاکستان اور بھارت کے وزرائے اعظم کو ملنے کا موقع ملا جس میں ایک معاہدے پر دستخط ہوئے۔اس معاہدے کے مطابق دونو ں ممالک ایک دوسرے کے جوہری مراکز پر حملہ نہ کرنے کے پا بند ہوئے۔



    کشمیری مجاہدین نے1988ء بھارت کے خلاف جہا د کا آغاز کیا۔تو بھارت نے پاکستان کو مور دالزام ٹھرانا شروع کر دیا۔ پاکستان نے ہندوستان سے کشمیریوں کو حق خود ارادی دینے کا مطالبہ کیا جس سے بھارت نے مکمل چشم پوشی کی۔



  پاکستان اور بھارت کے تعلقات1990ءمیں کچھ بہتری ہوئی۔ باہمی تجارت اور لوگوں کی آمدورفت بڑھی۔ یہ تعلقات ایک محدود حدسے آگے نہ بڑھ سکے کیونکہ بھارت مسئلہ کشمیر کو منصفانہ طور پر حل نہیں کرنا چاہتا۔ پاکستان اب بھی اپنے اس منصفانہ موقف پر قائم ہے کہ مسئلہ کشمیر بین الاقوامی برادری کی منظور کی گئی اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق مظلوم کشمیریوں کی رائے کے مطابق حل کیا جائے۔



   پاکستان کے صدر پرویز مشرف اور بھارت کے وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی کے درمیان2001ء میں ہونے والی اپنی نوعیت کی پہلی کانفرنس آگرہ میں ہوئی۔ جس کا پاکستان اور بھارت کے علاوہ دنیا بھر میں شہرہ رہا۔ صدر پاکستان نے مسئلہ کشمیر کا موقف بڑی عمدگی کے ساتھ پیش کیا۔ جسکو پوری دنیا نے سراہا لیکن یہ تین روزہ مذاکرات بغیر حتمی فیصلے کے ختم ہو گئے۔



 


جنوری 2004ء میں سارک کانفرنس (اسلام آباد)کے دوران صدر پاکستان اور بھارت کے وزیر اعظم کے درمیان مذاکرات ہوئے اور کئی سمجھوتے طے پائے اور مذاکرات کو جاری رکھنے کا ارادہ ظاہر کیا گیا۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس منعقدہ ستمبر 2004ء کے موقع پر صدر پاکستان اور بھارت کے وزیر اعظم کے درمیان ملاقات ہوئی اور مذاکرات جاری رکھنے کا اظہار کیا گیا جس کے نتیجے میں دونوں ممالک کے وزرائے خارجہ و سیکٹری خارجہ کی ملاقاتیں جاری رہیں لیکن ان مذاکرات کا بھی کوئی خاص نتیجہ سامنے نہیں آسکا۔



ممبئی میں ہونے والے دہشتگردی کے واقعات کے بعد پاکستان اور بھارت کے تعلقات کافی کشیدگی اختیار کر گئے کیونکہ بھارت پاکستان کو ان حملوں کو ذمہ دار سمجھتا تھا لیکن جلد ہی حالات  ٹھیک ہو گئے اور 2011ء میں ورلڈ کپ کے سیمی فائنل کے موقع پر جب پاکستان اور بھارت کا میچ تھا تو دونوں ملک کے سربراہوں کی ملاقات ہوئی  اور آپس کے تعلقات کو خوشگوار کرنے کی طرف توجہ دی گئی۔ امید کی جاتی ہے کہ موجودہ دور میں ان دونوں ممالک کے تعلقات خوشگوار ہو جائیں گے۔




About the author

shahzad-ahmed-6415

I am a student of Bsc Agricultural scinece .I am from Pakistan. I belong to Haripur.

Subscribe 0
160