گرمی کی شدت کے بارے میں عام خیال یہ ہے کہ سانس کی تکلیف میں اضافہ کر دیتی ہے مگر گرمی دراصل ازخود استھما اٹیک کی زمہ دار نہیں ہے کیونکہ دمے میں مبتلا افراد اس وقت زیادہ مشکلات محسوس کرتے ہیں جب موسم انتہائی خشک ہو یا ٹھنڈا جبکہ گرمی یا نمی کا تناسب بڑھ جانے سے ان پر مضر اثرات کم پڑتے ہیں۔
گرمی میں دمے کے دوروں کی اصل وجہ بعض افراد کا اس موسم سے الرجک ہونا بھی ہو سکتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ انہیں گرمیوں کے مہینوں میں ایسے دوروں کا تجربہ زیادہ ہوتا ہے جو کہ شدید گرمی کی حالت میں حواس کھو بیٹھتے ہیں۔
گرم موسم میں مٹی اور دھول ایک عام سی بات ہے جو کہ دمے میں مبتلا افراد کے لیے نقصان دہ ثابت ہوتی ہے۔ اسی طرح پودوں سے زردانوں کا اخراج سارا سال ہی ہوتا رہتا ہے مگر کچھ پودے گرمیں کے موسم میں زردانے زیادہ بڑی تعداد میں منتقل کرتے ہیں جو کہ سانس کے زریعے انسانی جسم میں داخل ہو کر سانس کے امراض میں اضافہ کر دیتے ہیں۔
فضائی آلودگی بھی اس کی وجہ ہو سکتی ہے جس میں اضافہ سانس کے مریضوں میں مشکلات بڑھا دیتا ہے جو کہ کھانسی اور ناک بہنے کی وجہ سے پریشان رہتے ہیں یا انہیں سانس لینے میں دقت پیش آتی ہے۔ شدید گرمیوں کے دوران دوپہر اور شام کے اوقات اس مرض میں مبتلا افراد پر بھاری ہوتے ہیں لہٰزا ہمارا مشورہ تو یہ ہے کہ وہ اس دوران اپنے گھروں میں رہیں تاکہ نارنجی اور سرخی مائل شعاؤں سے محفوظ رہیں۔
فضائی آلودگی کم ہو یا زیادہ سال کے کسی بھی حصے میں ایک خراب چیز ہو سکتی ہے لیکن فیکٹریوں کے نزدیک رہائش پزیر افراد جہاں فضا میں ہر وقت دھواں موجود رہتا ہو یا کسی مصروف سڑک کے کنارے جہاں گاڑیاں بڑی تعداد میں آتی اور جاتی ہوں زیادہ مشکلات محسوس کر سکتے ہیں پھر یہ کہ پرسکون موسم بھی ان کے لیے خطرے کا باعث ہو سکتا ہے کیونکہ اسی دوران فضائی آلودگی کی تعمیر ہوتی ہے۔