Science ki dunya , ghuor se read kejye, London ki sargarmyan,,,,,,,,,,,

Posted on at


یہ سرنگیں جنگ عظیم دوم میں ہاتھوں سے کھودی گئی تھی اور یہ فضائی حملوں سے بچنے کے لیے استعمال کی گئیں۔

اس جگہ 8000 لوگوں کے رہنے کی گنجائش تھی اور یہاں بیت الخلا کی سہولت، نگہداشت کا مرکز اور کینٹین تھی جس میں جیم اور سینڈوچ دیے جاتے ہیں۔

کلیپھم ساؤتھ کے گہرے شیلٹر یا پناہ گاہ کو ایک نئے ریلوے نظام کے لیے بنایا گیا گا تو جو لندن کے شمالی حصوں کو جنوبی حصوں سے ملانے والا تھا۔

لندن کے زیرِ زمین ریلوے کے ڈائریکٹر آپریشنز نائجل ہولنس نے بتایا کہ ’یہ اس دور کا کراس ریل مصوبہ تھا۔ مگر ہمارے آباؤ اجداد کے پاس دوربین نگاہ نہیں تھی اور نہ پیسہ تھا کہ وہ اس پر پیسہ لگا سکتے اور مکمل کر سکتے۔‘

اس کے بعد ہم ایک اور سرنگ میں داخل ہوتے ہیں جہاں چھوٹے سخت بنک بیڈ دیوار کے ساتھ قطار میں لگے ہوئے ہیں۔

یہ سرنگیں جنگِ عظیم دوم کے دوران ہاتھوں سے کھودی گئی تھیں اور فضائی حملوں سے بچاؤ کی پناہ گاہ کے طور پر استعمال ہوتی تھیں۔

اس پناہ گاہ میں 8000 کے قریب افراد رک سکتے تھے جن کے لیے ٹوائلٹ کی سہولت، نرسوں کا ایک پوائنٹ اور کینٹین تھی جہاں سینڈوچ پیش کیے جاتے تھے۔ مگر یہ کبھی بھی اتنے افراد کے لیے استعمال نہیں ہوا۔

لندن انڈر گراؤنڈ کے فلپ ایش کا کہنا تھا کہ ’حکومت کے لیے ایک بڑا خدشہ یہ تھا کہ کہیں اس سب کے نتیجے میں غار نشینی کا ایک رجحان شروع نہ ہو جائے۔ غاروں میں زیرزمین رہنا ایک برطانوی طریقہ نہیں تھا۔‘

1948 میں جب جہاز ایمپائر ونڈ رش برطانیہ آیا جس پر 400 جمیکن سوار تھے تو ان سرنگوں کو ایک بار پھر استعمال میں لایا گیا۔

برطانیہ جو انہیں نظر آیا وہ ایسا نہیں تھا جیسا اُن کی توقع تھی جب وہ ٹلبری پہنچے تو ان نوواردوں کو بسوں میں سوار کروا کر ان پناہ گاہوں میں لایا گیا اور انہوں نے اگلے چھ مہینے تک ان گہری زیرزمین پناہ گاہوں میں گذارے جب تک انہیں نئی رہنے کی جگہ نہیں مل گئی۔

اس کی ایک وجہ اس علاقے کے قریب ایک بہت بڑی افریقن کیریبئن کمیونٹی ہے جنہوں نے قریبی برکسٹن میں کام کرنا شروع کیا اور بہت سارے لوگ یہاں رہ گئے۔

اب جب یہ پناہ گاہ برائے فروخت ہے تو لندن انڈرگراؤنڈ ’متنوع مشوروں کی متلاشی ہے کہ انہیں کیسے استمعال کیا جا سکتا ہے۔

سات دوسرے لندن کے شیلٹر کرائے پر دیے گئے ہیں سازوسامان ذخیرہ کرنے کے لیے جبکہ ایک کو تو زیرِ زمین فارم بنانے کے لیے مشہور شیف میچل روکس جونیئر کو کرائے پر دیا گیا ہے۔

ہمارے زیرِ زمین اگلے دورے میں ہم نے ایک ایک تنگ کم روشن پتوں میں گھری سیڑھی کے راستے مرکزی لندن میں ایک پلیٹ فارم پر پہنچے۔ یہ زمین کی سطح سے بیس سیڑھیاں نیچے ہے اور پھر اس کے بعد صرف ایک قدم نیچے ریل کی پٹڑی ہے۔

یہ وہ جگہ نہیں جہاں آپ کو امید ہو کہ یورپ کا سب سے بڑا تعمیراتی منصوبہ زیرِ تکمیل ہو جسے کراس ریل کے نام سے جانا جاتا ہے۔ تاہم کنگز وے کی ٹرام سرنگ نے اس منصوبے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔

اس سرنگ کے ذریعے مسافر ایک زمانے میں ہولبورن سے واٹرلو کے پُل پر جاتے تھے۔ تاہم گذشتہ 60 سال سے عدم توجہی کا شکار ہےجسے بعض اوقات فلموں کے سیٹ کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔

دیواروں سے لٹکے پوسٹر ایک تصوارتی نمائشی یونین سٹریٹ کے لندن انڈرگراؤنڈ کے سٹیشن کا منظر پیش کرتے ہیں۔

اب کراس ریل کے لیے ارد گرد کی عمارتوں کو تقویت دینے کے لیے کنکریٹ ڈالا جاتا ہے تاکہ وہ تعمیراتی کام سے متاثر نہ ہوں۔

بڑی کھدائی کی مشینیں کام میں مصروف ہیں جبکہ لندن انڈر گراؤنڈ کے اہلکار ہمیں بتاتے ہیں کہ اس زیرِ زمین کام کی کتنی اہمیت ہے اور اس میں ان سرنگوں نے کتنا اہم کردار ادا کیا ہے جس سے سہولت ملی ہے۔



About the author

160