فضائی آلودگی اور سردی کی شدت دل کے امراض میں مبتلا فراد کے لئے موت کا پروانہ ثابت ہو سکتی ہے اور یا خراب ہوامیں سانس لینا کم از کم پہلی فرصت میں دل کے امراض کو دعوت تو دے ہی سکتا ہے۔ محققین کے مطابق بیشتر تجزیوں سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ ان گنت افراد ایسے حالات میں اپنی جان گنوا بیٹھتے ہیں یا شدید عارضہ قلب میں مبتلا ہو جاتے ہیںجب درجہ حرارت میں اچانک تبدیلی پیدا ہو اوریا فضائی آلودگی کا لیول بڑھ جائے ۔
بعض قسم کے اسٹرلیس ظاہر ہےکہ دونوں صورتوںمیں اثرانداز ہوتے ہیں اور نیو اور لیئز میں قائم امریکن ہارٹ ایسوسی ایشن میں تحقیق کرنے والی چار ٹیموں کا مشترکہ موقف یہ ہے کہ"مسئلہ محض بدلتے ہوئے درجہ حرارت کا نہیں ہے بلکہ اصل نکتہ یہ ہے کے آپ اس درجہ حرارت کی تبدیلی کے خلاف اپنا بچائو کس طرح کرتے ہیں۔
“نارتھ کیرولینا کی ڈیوک یونیورسٹی کے ڈاکٹر گیڈکاٹر” کی ٹیم نے گذشتہ سردیوں مین 300 مریضوں کا معائنہ کیا اورعلم ہوا کہ جب درجہ حرارت اچانک سات ڈگری سینٹی گریڈ تک کم ہو جائے تو بیشتر افراد کو جو کہ عارضہ قلب میں مبتلا ہوتے ہیں اسپتال کا رخ کرنا پڑتا ہے جنہیں گرم دنوں کے مقابلے میں دل کی تکلیف سرد مو سم میں زیادہ پریشان کرتی ہے۔ اسی طرح فضائی آلودگی میں اضافے کی صورت میں بھی مریضوں کی تعداد بڑھ جاتی ہے کیونکہ دونوں صورتوں میں دل خون کو پمپ کرنے کی حقیقی صلاحیت کھو بیٹھتا ہے جس کانتیجہ یہ نکلتا ہے کہ یاتو مریض کی سانس رکنے لگتی ہے اور زیادہ بہیوشی اور غنودگی کا شکار ہو جاتا ہے۔
ہمارے ملک میں فضائی آلودگی ایک خطرناک مسئلہ بنتی جا رہی ہے جس میں کمی کافی الوقت کوئی امکان دکھائی نہیں دیتاکیونکہ اس حواے سے کوئی اقدام ہی نہیں کیا جاتا پھر یہ کہ سردیوں کا آغاز بھی ہو چکا ہے لٰہذا امراض قلب میں مبتلا افراد خصوصاَ زائدالعمر اپنے لئے حفاظتی اقدامات کر لیں تو بہتر ہے کیونکہ احتیاط بہر حال علاج سے بدرجہابہتر ہے!