حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے معمولات

Posted on at


حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے معمولات


بعد فجر


حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول تھا کہ نماز فجر پڑھ کر ہی جانماز پر آلتی پالتی مار کر (چار زانو) بیٹھ جاتے صحابہ رضی اللہ عنہم پروانہ وار پاس آکر جمع ہوجاتے۔


یہی دربار نبوت تھا۔ یہی حلقہ توجہ تھا۔ یہی درسگاہ ہوتی تھی۔ یہی محفل احباب بنتی تھی۔ یہیں آپ نزول شدہ وحی سے صحابہ کو مطلع فرماتے۔ ہیں آپ فیوض باطنی اور برکات روحانی کی بارش ان پر فرماتے۔ یہیں آپ دین کے مسائل۔۔ معاشرت کے طریقے ، معاملات کے ضابطے، اخلاق کی باریکیاں ان کو تعلیم فرماتے لوگوں کے آپس کے معاملات و مقدمات فیصل فرماتے۔۔


بعد ظہر


نماز ظہر با جماعت پڑھ کر اکثر مدینہ کے بازاروں میں گشت لگا تے۔ دکانداروں کا معا ئنہ واحتساب فرماتے۔ ان کا مال ملا خطہ فرماتے ان کے مال کی اچھائی بُرائی جانچتے ان کے ناپنے تولنے کی نگرانی فرماتے کہ کہیں کم تو نہیں تولتے۔ بستی اور بازار میں حاجت مند ہوتا تو اس کی حاجت پوری کرتے۔


بعد عصر


نماز عصر باجماعت پڑھ کر ازواج مطہرات میں سے ایک ایک کے گھر تشریف لے جاتے۔ حال پوچھتے اور ذرا ذرا دیر ہر ایک کے یہاں ٹھہرتے اور یہ کام اتنی پابندی سے کرتے کہ ہر ایک کے یہاں مقرر وقت پر پہنچتے اور سب کو معلوم تھا کہ آپ وقت کے بہت قدر شناس اور پابند ہیں۔


بعد مغرب


نماز مغرب با جماعت پڑھ کر اور نوافل (اشراق چاشت اور اوابین کی نماز کبھی آپ ادا فرماتے اور کبھی چھوڑ دیتے تاکہ امت پر فرض، واجب، یا سنت مؤکدہ نہ ہو جائیں) اوابین سے فارغ ہوکر جن بی بی کی باری ہوتی آپ شب گزارنے کے لئے وہیں تھہر جاتے۔۔ اکثر تمام ازواج مطہرات اسی گھر میں آکر جمع ہوجاتیں۔


مدینہ کی اور عورتیں بھی اکثرجمع ہوتیں ۔۔ اس لئے کہ اس وقت آپ عورتوں کو دینی مسائل تعلیم فرماتے گو یا مدرسہ شبینہ اور مدرسہ نسواں قائم ہوتا۔ جس میں انتہائی ادب اور پردہ کے ساتھ عورتیں علم دین ۔۔ حسن معاشرت ، حسن اخلاق کی باتیں اس معلم عالم صلی اللہ علیہ وسلم سے سیکھتیں ۔ اللہ کے رسول عورتوں کو(جن کی گودیں بچوں کی پہلی درسگاہ ہوتی ہیں) علم دین سے محروم اور تہذیب اسلامی سے نا آشنا نہیں رکھنا چاہتے تھے۔ یہیں عورتیں اپنے مقدمات پیش کرتیں۔ آپ ان کا فیصلہ فرماتے۔ وہ اپنی پریشانیاں ، شکائتیں ، مجبوریاں بیان کرتیں۔ آپ ان کو حل فرماتے۔


بعد عشاء


نماز عشاء با جماعت پڑھ کر آپ اس شب کی قیام گاہ پر جاکر سو رہتے۔ عشاء کے بعد بات چیت کرنا آپ پسند نہ فرماتے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ داہنی کروٹ سوتے۔ اکثر داہنا ہاتھ رخسار مبارک کے نیچے رکھ لیتے۔ قبلہ کی طرف سرہانہ کرتے۔ جا نماز اور مسواک اپنے سر ہانے ضرور رکھ لیتے سوتے وقت سورۂ جمعہ بعض روایات میں سورۃ حشر سورۃ بنی اسرائیل اور سنح اسم ربک الا علیٰ کا پڑھنا بھی آیا ہے۔ تغابُن، صف کی تلاوت فرماتے۔ سوتے وقت فرماتے۔ خدایا تیرا نام لے کر مرتا اور زندہ ہوتا ہوں۔ کبھی آدھی رات کبھی دو تہائی رات کے بعد اُٹھتے اور فرماتے۔ اس خدا کا شکر ہے جس نے مرنے کے بعد زندہ کیا اور حشر بھی اسی کی طرف ہوگا۔


پھر مسواک سے دانت صاف کرتے۔ وضو کرتے پھر تہجد کی نفلیں کبھی دو کبھی چار کبھی چھ کبھی آٹھ کبھی دس رکعات پڑھتے۔ اس کے بعد تین رکعات وتر پڑھ کر پھر دو رکعتیں نفل کھٹرے ہو کر پڑھتے (آخر عمر میں البتہ بیٹھ کر پڑھی مگر آپ کو ثواب پورا ہی ملتا تھا، دعا زیادہ مانگتے۔۔ کبھی نفل نماز کے سجدہ میں دیر تک دعا مانگتے پھر آرام فرماتے۔ جب فجر کی اذان ہوتی تو اٹھتے۔ حجرہ شریفہ ہی میں دو رکعت سنت پڑھ کر وہیں داہئنی کروٹ ذرا لیٹ رہتے پھر مسجد میں تشریف لاتے اور با جماعت نماز فجر ادا فرماتے۔


یہ تھے آپ کے روزانہ کے معمولات۔ اول تو پانچوں نمازیں خود ہی قدرتی طور پروقت کی پابندی سکھاتی ہیں۔ ہر تھوڑی دیر کے بعد اگلی نماز کا وقت آکر مسلمان کو متنبہ کرتا ہے کہ اتنا وقت گزر گیا۔۔ اتنا باقی ہے جو کچھ کام کرنا ہو کر لو۔ اس پابندی وقت کے علاوہ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خصوصیت یہ تھی کہ اپنے ہر کام کے لئے وقت مقرر فرمالیتے اور اس کو پوری پابندی سے نباہتے اسی وجہ سے آپ بہت کام کر لیتے تھے کبھی آپ نے وقت کی کمی اور تنگی کی شکایت نہیں فرمائی۔



About the author

muhammad-haneef-khan

I am Muhammad Haneef Khan I am Administration Officer in Pakistan Public School & College, K.T.S, Haripur.

Subscribe 0
160