زراعت اور پاکستان(حصہ دوم

Posted on at


مختلف زرعی آلات خریدنے کے لیے سرمایہ کاری کی ضرورت ہوتی ہے لیکن پاکستان کے کاشت کار بہت زیادہ غریب ہیں۔ اس مقصد کے لیے زرعی ترقیاتی بنک تعمیر کیا گیا ہے جو کہ کسانوں کو آسان شرائط پر قرضہ دیتا ہے۔


پاکستان میں کاشت کا 67 فی صد حصہ مصنوعی آبپاشی سے سیراب ہوتا ہے اور باقی بارشوں سے۔ آبپاشی کا سب سے بڑا زریعہ نہریں ہیں۔ دوسرے نمبر پر ٹیوب ویل ہیں۔ پاکستان میں نہروں سے 60 فی صد پانی ضائع ہوتا ہے اس کی بحالی کے لیے پروگرام بنایا گیا ہے۔ آٹھویں پانچ سالا ترقیاتی منصوبے میں پانی کے وسائل کی ترقی کے لیے 55 بلین کی رقم رکھی گئی ہے۔ آبپاشی کے نظام کی بہتری کے لیے حکومت نے تربیلہ اور منگلہ جیسے ڈیم بھی بنائے ہیں اور کچھ منصوبے ابھی زیر تکمیل ہیں۔


کھیت سے منڈی تک ناقص سڑکیں ، کمیشن ایجنڈوں کے ہتھکنڈے اور گوداموں کی قلت کی وجہ سے پاکستان کے کاشت کاروں کو بہت سے مسائل درپیش ہیں۔ چنانچہ ایسے ادارے قائم کیے گئے جو براہ راست کاشت کار سے پیداوار خریدتے ہیں۔


پاکستان میں زیر کاشت رقبے کی تعداد 2 کروڑ 24 لاکھ ایکڑ ہے ۔ پاکستان کے 60 فی صد حصے پر پہاڑ اور سطع مرتفع ہیں اور کچھ علاقے صحرائی اور ریگستانی ہیں۔ یعنی پاکستان میں زیر کاشت رقبے کا 40 فی صد بے کار پڑا ہے۔ اگر اس 40 فی صد بے کار رقبے کو کاشت کے قابل بنایا جائے  تو مجموعی زرعی پیداوار میں کافی اضافہ ہو سکتا ہے۔ اس لیے حکومت مختلف اقدامات لے رہی ہے۔


بارشوں ، سیلاب اور آندھیوں سے زمین کا کٹاؤ ہوتا ہے اور اس طرح بھی زراعت کا عمل متاثر ہوتا ہے ۔ حکومت زمین کے کٹاؤ کو کم کرنے کے لیے مختلف اقدامات لے رہیں ہے۔


امدادی قیمت پالیسی کے تحت حکومت کسانوں سے ان کی پیداوار معقول قیمت پر خود خرید لیتی ہے تاکہ جس سال فصل زیادہ ہونے سے زرعی پیداوار کی قیمتیں گر جائیں تو کسان اس نقصان سے محفوظ رہ سکے۔


سیم و تھور زیر کاشت رقبے کو بری طرح تباہ کرتے ہیں ۔ ان کی روک تھام کے لیے بہت سے منصوبے تیار کیے گئے ہیں۔ ٹیوب ویل سکیم کےتحت ایک لاکھ 80 ہزار نئے ٹیوب ویل لگائے گئے ہیں۔ اسی طرح سیم و تھور کے خاتمے اور زیر کاشت زمین کو محفوظ بنانے کے لیے جدید ترین منصوبہ سکارپ بھی مختلف صوبوں میں  شروع کیا گیا ہے۔ جن میں صوابی کے بعض علاقوں میں اچھے نتائج حاصل ہوئے ہیں۔


حکومت نے زرعی تعلیم کے فروغ کے لیے پشاور ، فیصل آباد ، راولپنڈی، لاہور، کراچی اور کوئٹہ میں زرعی یونیورسٹیاں قائم کی ہیں۔ جہاں تعلیم کے علاوہ زرعی  مسائل پر تحقیق بھی کیا جاتاہے۔


 


 


 



About the author

shahzad-ahmed-6415

I am a student of Bsc Agricultural scinece .I am from Pakistan. I belong to Haripur.

Subscribe 0
160