اقبال کا تصور شاھین کیا ہے اور وہ کن صفات کی بنا پر اس پرندہ کو اس قدر پسند کرتے تھے۔ اس سلسلے میں وہ خط بہت اہم ہے جو انہوں نے ظفر احمد صدیقی کو لکھا تھا اور‘‘اقبالنامہ’’ میں شامل ہے۔ اس میں وہ لکھتے ہیں:۔
‘‘شاھین کی تشبیہ محض شاعرانہ تشبیہ نہیں ہے۔ اس جانور میں سلامی فقر کی تمام خصوصیات پائی جاتی ہیں۔ (۱) خوددار اور غیرت مند ہے کہ اور کے ہاتھ کا مارا ہوا شکارنہیں کھاتا۔ (۲) یہ تعلق ہے کہ آشیانہ نہیں بناتا۔ (۳) بلند پرواز ہے۔ (۴) تیز ہے۔’’
گویا اقبال کو یہ پرندہ اپنی خونخواری کے باعث پسند نہیں ہے بلکہ اس لیے پسند ہے کہ اس کے اندر وہ تمام صفات موجود ہیں جو اقبال کے نزدیک ایک مرد مومن یا مرد درویش میں موجود ہونی چاہئیں۔ وہ اپنی قوم کے نوجوانوں کو اپنی صفات کا حامل دیکھنے کا خواہش مند ہیں اس لئے انہیں شاھین بچے کہہ کر مخاطب کرتے ہیں۔ شاھین کو اس طرح علامت بنا کر اس سے پہلے کسی اردو شاعر نے پیش نہیں کیا تھا یہ صرف اقبال ہیں جنہیں اس پرندہ میں قوت، تیزی، وسعت نظر، دوربین، بلندپروازی، درویش، خودداری اور بےنیازی جیسی وہ تمام صفات نظر دیا۔ ‘‘بال جبریل’’ میں‘‘شاھین’’ کے عنوان سے جو نظم ہے اس میں وہ ان تمام قابل تقلید صفات کا بڑی خوبی سے ذکر کرتے ہیں۔
نظم ملاحظہ فرمائیں:۔
‘‘کیا میں نے اس خاکداں سے کنارہ جہاں رزق کا نام ہے آب و دانہ
بیاباں کی خلوت خوش آتی ہے مجھ کو ازل سے ہے فطرت مری راہبانہ
خیابانوں سے ہے پرہیز لازم ادائیں ہیں ان کی بہت دلبرانہ
ہوائے بیاباں سے ہوتی ہے کاری جوانمرد کی ضربت غازیانہ
حمام و کبوتر کا بھوکا نہیں میں کہ ہے زندگی باز کی زاہدانہ
جھپٹنا، پلٹنا، پلٹ کر جھپٹنا لہو گرم رکھنے کا ہے یک بہانہ
یہ یورپ، یہ پچھم، چکوروں کی دنیا مرانیلگوں آسماں بے کرانہ
پرندوں کی دنیا کا درویش ہوں میں کہ شاھین بناتا نہیں آشیانہ‘‘
If you want to share my any previous blog click this link http://www.filmannex.com/blog-posts/aafia-hira/2.
Follow me on Twitter: Aafia Hira
Thanks for your support.
Written By: Aafia Hira