اگر ہر معالج یعنی ڈاکٹر میں مسیحائی صفت ہوتی تو آج ہر معالج فرشتہ سمجھا جاتا لیکن ایسا نہیں ہے کیونکہ علم اور تجربات سے حاصل ہونے والی معلومات انسانی صفات نہیں ہیں بلکہ یہ تو وقت کا تقا ضا ہوتی ہے بہت سے لوگ اس وجہ سے اپنے فیملی ڈاکٹر کے پاس ہی جانا پسند کرتے ہیں کیونکہ وہ یہ جانتے ہیں کہ ہمارا معالج چونکہ ہمارا فیملی ڈاکٹر ہے اور طبی ہسٹری جانتا ہے لہذا اس ڈاکٹر سے بہتر علاج اور کوئی نہیں کرسکتا اکثر ایسا ہوتا ہے کہ لوگ بہت ہی اچھے ڈاکٹر سے علاج کروانے کے باوجود بھی شفاء یابی حاصل نہیں کرپاتے
ڈاکٹر کوئی بھی ہو سچ تو یہ ہے کہ وہ بھی انسان ہوتا ہے اور اسکی دوائی کو سمجھنے سے بہتر ہے کہ اسکے ساتھ کو آپریٹ کیا جائے بیماری چاہے معمولی ہو یا پیچیدہ اپنی پوری اپنی پوری طبی ہسٹری معالج کو بتائی جائے اس سے کوئی چیز نہ چھپائی جائے اور کسی دھوکے میں نہ رکھا جائے یہی چیز انسان کے لیے نقصان دہ ثابت ہو سکتی ہے اگر آپ کا معالج سب کچھ جانتے ہوئے بھی علاج میں کوتاہی کرے یا بیماری کے بارے میں چھپائے یا بتانا بھول جائےتو یہ سب اس کی غلطی ہوگی
آجکل کے دور میں ہر طرف افراتفری اور ہلچل مچی ہوئی ہے پہلے اگر کسی کے گھر میں کوئی بیمارہوتا تو آس پڑوس اور خاندان کے لوگ اسکی تیمارداری کرنے پہنچ جاتے اس سے اپنائیت کا اظہار ہوتا لیکن وقت نے سب کچھ بدل کر رکھ دیا ہے اب اگر کسی کی سیریس سرجری بھی ہوجائے تو قریبی لوگ فون پر ہی حال احوال پوچھ لیتے ہیں وقت کے ساتھ ساتھ ہر چیز میں اضافہ ہوا ہے اور اسی طرح اسپتالوں میں بھی اضافہ ہوا ہے اور ڈاکٹر اسپتا لوں اور اپنے پرائیوٹ کلینکس میں دو دو جگہ بیٹھتے ہیں اور مریض کی رش کی وجہ سے بیماری کی علامات بڑی خوش اخلاقی سے پوچھ کر ہی دوائی لکھ دیتے اور اکثر بیمار انکی اس خوش اخلاقی سے ہی متاثر ہوتے ہیں اور ڈاکٹر کا یہی اچھا برتاو انکی بیماری کم کرنے میں مدد دیتا ہے۔