ادب اور ادیب

Posted on at


ادب کی تعریف مختلف علمائے ادب نے مختلف پیراؤں میں بیان کی ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ


ادب وہ فن لطیف ہے، جس کے ذریعے ادیب اپنے جذبات و افکار کو اپنےخاص نفسیاتی خصائص کے مطابق الفاظ کے واسطے سے ظاہر کرتا ہے۔  زندگی کے داخلی اور خارجی حقائق کو منظر عام پر لاتا ہے۔ اپنی قوت اختراع اور قوت تخیل سے کام لے کر ایسا اظہار بیان اختیار کراتا ہے جس سے سامع اور قاری کا جذبہ تخیل بھی اس طرح متاثر ہوتا ہے جس طرح ادیب کا اپنا تخیل اور جذبات متاثر ہوتے ہیں۔


 


ادب چونکہ قاری یا سامع پر اثر انداز ہوتا ہے اس لیے اس کی اہمیت انسانی معاشرے میں مسلم ہے۔ ادب سے انسان نے وہ معرکے سر انجام دیے ہیں  جو وہ تلوار و سناں سے سر انجام نہیں دے سکا۔ ادیب جسے اچھا کہہ دے وہ اچھا ہے اور جسے برا کہہ دے وہ برا ہے۔ جنگ کے میدان میں افواج کبھی بھی ہمت مردی سے نہ لڑ سکیں اگر ان کے پیچھے ادیبوں کی رزمیہ نغموں کی کمک نہ ہو۔ کسی معاشرے کا زوال اس وقت آتا ہے جب اس کے ادیب میں ہمت، عزت، شرافت اور صداقت کے ہتھیاروں کے بجائے بے حیائی اور جنگ و رباب جیسے مہلک جراثیم کو جگہ دے دی جائے بقول علامہ اقبال۔


آ تجھ   کو   بتاؤں   میں   تقدیر   امم   کیا   ہے"


"شمشیر   و   سناں   اول،   طاؤس   رباب   آخر


 


معلوم ہوتا ہے دشمن نے جان لیا ہے کہ پاکستانی قوم کی بربادی طاؤس رباب میں ہے۔ اس لیے طاؤس و رباب کو آج کل ادیب بڑے ادب سے متعارف کروا رہا ہے۔ کبھی اسے تفریح قرار دیتا ہے، کبھی عادت، کبھی  روح کی غذا، کبھی فنکارانہ کمال ثقافت سے اسے نئی نسل کے حلق میں انڈیل رہا ہے۔ ملک عزیز میں ڈاکے، قتل و غارت گری، اغواء دہشت گری، راتوں رات امیر بننے کے خواب صوبائی اور لسانی عصبیت کا زہر، ہیروئن اور نشہ آور اشیاء کا استعمال، عریانی اور فحاشی ، بھارتی ثقافت کی یلغار،  کمیونزم جیسے استحصال پرور اور ملحدانہ نظام کی ستائش، جمہوریت کے سراب آثار ادب ہی کے ذریعے در آئے ہیں۔ ادب و ثقافت کی آڑ میں ریڈیو، ٹی وی، ڈرامہ، فلم، مصوری، رقص اور آرٹ کے ذریعے عوام کے ذہنوں میں انتہاہی متعفن، انسانیت کش اور دین سے متنفر کرنے والے افکار و خیالات کے بیج بوئے جا رہے ہیں۔


 


 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ‘‘اولاد کو اچھا سکھاو’’۔ ‘‘جو اپنی لونڈی کو اچھا ادب سکھائے اچھی تربیت کرے، اچھی تعلیم دے اور اسے آزاد کر کے اس سے نکاح کر لے، اس کے لیے دہرا اجر ہے’’۔


 


  ادب سے مراد تہذیب اور شائستگی ہے یعنی ایسا طریقہ روش یا عادت جسے اختیار کرنے سے انسانی شخصیت حسن و قار، شائستگی اور خوبصورتی کے سانچے میں ڈھل جائے۔ اس لیے کسی خاص شعبے، فن یا علم میں مہارت حاصل کرنے کے طریقوں کا نام آداب ہے۔ آداب، ادب کی جمع ہے مثلاً گفتگو میں حسن و جمال، شائستگی اور سلیقہ پیدا کرنے والے رویے کا کام آداب گفتگو ہے۔ جو رویہ تحریر و انشاء و شعر میں حسن و جمال، تہذیب و وقار، سلاست و روانی پیدا کرے اس کا نام ادب لطیف ہے۔ اس ادب لطیف یعنی تہذیب اخلاق، شائستگی اور حسن و جمال کو حسن نگارش اور موثر انداز میں پیش کرنا ادیب کا کام ہے۔




About the author

Asmi-love

I am blogger at filmannex and i am very happy because it is a matter of pride for me that i am a part of filmannex.

Subscribe 0
160