علامہ ابن خلدون لکھتے ہیں کہ جتنی بھی اسلامی سلطنتوں کو زوال آیا ان میں اکثر کا باعث زوال یہی تھا کہ بادشاہ ناچ گانوں کی محفل میں شب و روز مصروف رہتے تھے۔
امام شافعی ارشاد فرماتے ہیں کہ بغداد میں ایک ایسی چیز چھوڑ آیا ہوں۔ جسے زندیقوں نے ایجاد کیا ہے یعنی گانا بجانا۔ تاکہ مسلمان اس میں مصروف ہو کر قرآن و نماز سے دور ہو جائیں۔
امام ابن تیمیہ فرماتے ہیں کہ امام شافعی کا کہنا ہے کہ یہ چیز زندیقوں نے ایجاد کی ہے۔ بالکل درست ہے مثلاً فارابی، ابن سینا اور ابن راوندیوغیرہ موسیقی میں بہت ماہر تھے۔ اس فن کو جاننے والے جانتے ہیں کہ اس نے اپنا علیحدہ طریقہ بھی ایجاد کیا تھا۔
شاہ عبدالحق محدث دہلوی فرماتے ہیں عربی راگ میں سب سے بڑھ کر گانے والے کا نام طویس تھا۔ یہ شخص بڑا منحوس تھا۔ یہ شخص اس دن پیدا ہو جس دن حضرت محمدؐکا انتقال ہوا اور جب خلیفہ المسلمین حضرت ابو بکر صدیقؓ کا انتقال ہوا اس دن اس کا دودھ چھوٹا اور یہ شخص بالغ اس دن ہوا جب امیر المومنین حضرت عمرؓ کی شہادت ہوئی۔ اورجس دن حضرت عثمان غنیؓ کی شہادت ہوئی۔ اس دن اس منحوس آدمی طویس کا نکاح ہوتا ہے اور جس دن حضرت علیؓ شہید ہوتے ہیں اس دن اس کے ہاں لڑکا پیدا ہوا یعنی یہ شخص اس قدر منحوس نامبارک تھا۔ اس لیے محاورے کے طور پر استعمال ہونا شروع ہو گیا۔ عرب کہتے ہیں کہ اشام من طویس۔
حضرت محمدؐ کا ارشاد ہے کہ اللہ تعالیٰنے مجھے دو احمق آوازوں سے منع فرمایا ہے کہ ایک گانے بجانے سے جو پیدا ہو اور دوسری وہ جو بین کرتے وقت پیدا ہوتی ہے۔ اسی طرح حضرت حسنؓ فرماتے ہیں کہ دو معلون آوازیں ہیں۔ ایک آواز جو آلات طرب پر لگانے سے پیدا ہوتی ہے۔ دوسری وہ آواز جو مصیبت میں بین کرنے سے پیدا ہوتی ہے۔ فرمان نبویؐ ہے کہ
‘‘جو شخص گانا بجانے کا کام کرے یا اپنے ہاں اہتمام کرے۔ ان دونوں پر اللہ تعالیٰ لعنت فرماتے ہیں۔’’
آج کے دور میں ریڈیو، ٹیلی ویژن اور وی سی آر جس طرح گھر گھر میں فحاشی پھیلا رہے ہیں اور نئی نسل جس طرح بے راہ روی کا شکار ہو رہی ہے۔ وہ کس سے پوشیدہ نہیں ہے۔ اب یہ ہم سب کے لیے لمحہ فکریہ ہے کہ ہم یوم حساب کس منہ سے خالق کائنات کے سامنے ہوں گے۔