تعلیم نسواں اور عورت کا مقام ( حصہ دوم

Posted on at


ہمارے ملک پاکستان میں عورتوں اور مردوں کو ایک ہی نظام کے تحت تعلیم دی جاتی ہے اس نظام کی بنیاد انگریزوں نے رکھی تھی۔  اس کے تحت عورتوں کو بالعموم ایسی تعیلم دی جاتی ہے جس سے عورتوں کی نسوانیت کو ٹھیس پہنچتی  ہے اور یہ چیز ان کے لیے سب سے زیادہ مہلک ہے۔ بقول اقبال

؎جس علم کی تاثیر سے زن ہوتی ہے نازن

کہتے ہیں اسی علم کو ارباب ہنر موت

حقیقت یہ ہے کہ عورت کے ساتھ اس سے بڑا کوئی ظلم نہیں ہو سکتا ہے کہ اسے کلرک، ٹائپسٹ، سیلز گرل اور ائیر ہوسٹس بننے پر مجبور کیا جائے۔اسی صورت حال کا اندازہ لگاتےہوئے اقبال نے کہا تھا:

؎لڑکیاں پڑھ رہی ہیں انگریزی

قوم نے ڈھونڈ لی فلاح کی راہ

      روش مغربی ہے مد نظر

وضع مشرق کو جانتے ہیں گناہ

یہ ڈرامہ دکھائے گا کیا سین؟

       پردہ اٹھنے کی منتظر ہے نگاہ

 

اس افسوس ناک صورت حال کا سبب یہ ہے کہ ابھی تک پاکستان میں تعلیم نسواں کے مقاصد کا تعین ہی نہیں کیا گیا۔ تعلیم نسواں کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ عورت کو ان فرائض کی ادائیگی کے قابل بنایا جائے  جو اس پر بحثیت عورت عائد ہوتے ہیں۔ ضروری ہے کہ وہ ایک اچھی بیوی اور ایک اچھی ماں بن سکے۔ اس مقصد کے حصول کے لیے ضروری ہے کہ سب سے پہلے تو ملی نظام تعلیم میں انقلابی تبدیلیاں پیدا کر کے اس کی بنیادیں اسلامی اصولوں پر استوار کی جائیں۔  پھر اس جدید اسلامی تعلیم کے تحت عورتو ں کے لیے الگ یونیورسٹیاں قائم کی جائیں۔ تعلیم نسواں کا سارا اہتمام انتظام خواتین یونیورسٹی کے تحت ہو ۔ اس طرح مخلوط تعلیم کی لعنت ختم ہو جائے گی اور عورتوں کو اپنے مخصوص تعلیمی دائرہ کار میں علمی اور تعلیمی ترقی کےلیے زیادہ سے زیادہ مواقع مل سکیں گے۔ ضروری ہے کہ خواتین یونیورسٹی، خواتین کالجوں اور سکولوں کے لیے الگ نصابات مقرر و مرتب کیے جائیں اور کتابیں شائع کی جائیں۔تعلیم نسواں کے اس نظام میں چند امور پر خاص توجہ دی جائیں۔

عورتوں کے لیے دینی تعلیم لازمی ہو۔ قرآن و حدیث کے ساتھ ساتھ دینی و شرعی امور کی تعلیم پر زور دیا جائے، جن کی زندگی کے مختلف مراحل پر ایک عورت کو ضرورت پڑتی ہے۔

خانہ داری  کی مکمل اور جامع تعلیم انتہائی ضروری ہے تاکہ عورت ایک بیوی اور والدہ کی حیثیت سے گھر کے نظام کو خوش اسلوبی اور کامیابی کے ساتھ چلا سکے۔

جو خواتین چاہیں انھیں پیشہ ورانہ تعلیم بھی دینا بے حد اہم ہے۔ جو خواتین معلمی، طبابت اور ابتدائی طبی امداد کے رجحان طبع رکھتی ہیں، انھیں ان مضامین کی تعلیم دی جائے۔

خواتین کو جہاں تک ہو سکے گھریلوں دست کادی کی تعلیم بھی دینی ضروری ہے تا کہ ناسازگار حالات میں ایک خاتون دوسروں پر بوجھ نہ بنے اور باعزت طور پر اپنی روزی کمانے کے قابل ہو سکے۔

تعلیم کی یہ تمام توعیتیں ایسی ہوں کہ عورت کی نسائیت اور نسوانیت مجروع نہ ہو، وہ عورت ہی رہے، مردوں اور عورتوں کے بیچ کی مخلوق بن کر نہ رہ جائے۔



About the author

shahzad-ahmed-6415

I am a student of Bsc Agricultural scinece .I am from Pakistan. I belong to Haripur.

Subscribe 0
160