کیا کبھی کچھ بھی ہوتا ہے

Posted on at


دکھوں پر ماتم منانے سے
سرِ بزم تماشا بنانے سے
ہزار واویلے مچانے سے
کیا کبھی کچھ بھی ہوتا ہے
دکھ ایک اثاثہ ہے
جو تم سے لے لیایا پھر
جو تم تک نہیں پہنچارضاۓ رب کا خاصہ ہے تو ہو غمزدہ سے کیوں
کہو یہ شکستگی کیسی
کہو یہ آشفتگی کیسی
تم تو صبر کے قائل تھے
رضاۓ رب پر مائل تھے
پھر یہ شکایتیں کیسی
کہو یہ رنجشیں کیس
ہاں انسانی فطرت میں بھی سمجھتی ہوں'
کہ ایک گہرا دکھ تو ہوتا ہے
کئی آنسو مچلتے ہیں
کئی شکوے پنپتے ہیں
اضطرابِ مسلسل ہے
کئی جذبوں کی ہلچل ہے
مگر ۔۔ ہر حال میں شکرِ خدا کا حلف جو تم نے اٹھایا تھا کہو ۔۔ کیا اسکو نبھایا ہے
کیا رب سے بڑھ کر مخلص یہاں تم نےکسی کو بھی پایا ہے رب کی ہر رضآ میں
ہر قضا میں
ہر سزا میں
ہر جزا میں
یقین مانو حکمت اک پوشیدہ ہے
اور حکمت میں فقط محبت پوشیدہ ہے
جسے ابھی تم نہیں جانو
ہاں پر جان جاؤ گے۔۔!
تو جس دن جان جاؤ گے؟
کیا رب کو اس دن سراہو گے؟
کیا اسی دن دکھ بھلاؤ گے؟
اسی دن سجدے میں دل جھکاؤ گے؟
تو کیا اس سے قبل تم نہ مسکراؤ گے؟
کہو یہ کیسی وفائیں ہیں؟
کیسی جفاکش ادائیں ہیں؟
میری ایک بات مانو گے؟
دو آنسو بہاؤ تم
۔۔جملہء قضاء کہہ دو
۔۔پھر مسکرا کر شکرِ خدا کہہ دو!
دکھ کی تدفین کر ڈالو۔۔!
اس پر اشکِ صبر کی کچھ نمی ڈالو
ہاں دکھ کو دعا میں یاد رکھنا تم
کہ جب جب دعا کو ہاتھ اٹھیں گے
تم رب کو بہت قریب پاؤ گے
راز ایک کہوں تم سےبےجا دکھ نتیجہء لاحاصل توقع ہے در حقیقت یہ رستہ صبر کا ہے
کیوں دروازہ یہ خود پر بند کرتے ہو
قرب اللہ کا یہ بہانہ
کیوں خود پر تنگ کرتے ہو
دکھ کو کیوں وبالِ جان کرتے ہو
گر اتنا عزیز ہے تو اثاثہ بنا لو ناں
!تم دکھ کو بھی رضاۓ رب سمجھ کر مسکرا لو ںاں


About the author

160