ٹی وی کا اسلام

Posted on at


بہت سے ٹی وی زدہ مسلمانوں کی زبانوں پر یہ الفاظ آپ نے بھی سنے ہوں گے:
”فلاں پروگرام میں کوئی صاحب یہ بات کہہ رہے تھے اور وہ صاحب بہت قابل ہیں، بہت اچھا پروگرام ہے، اس کو دیکھنا چاہیے، بڑی معلومات ہوتی ہیں، ہم تو اس پروگرام سے بہت سیکھتے ہیں۔“

ٹی وی کے پروگرام میں ایک صاحب آتے ہیں اور اکثر غلط دینی معلومات بہت وثوق اور دلیلوں کے ساتھ پیش کرتے ہیں۔
ایک خاتون سے میری بات ہوئی، کہنے لگیں کہ چہرے کا پردہ نہیں ہے۔ میں نے کہا کہ عورت کے چہرے کا پردہ ہے۔
کہنے لگیں اُن صاحب نے اپنے پروگرام میں بتایا ہے۔ میں نے خود سنا ہے کہ عورت کے چہرے کا پردہ نہیں ہے اور اس بات پر ان صاحب نے بہت اچھے دلائل بھی دئیے۔
ان محترمہ سے میں نے کہا کہ قرآن کریم پر ایمان ہے؟
کہنے لگیں، ہاں!
میں نے کہا: سورة الاحزاب میں صاف طور پر لکھا ہے،
"اے نبی ﷺ، بیویوں اور بیٹیوں اور مسلمانوں کی عورتوں سے کہہ دو کہ اپنے مونہوں پر نقاب ڈالا کریں یہ اس سے زیادہ قریب ہے کہ پہچانی جائیں پھر نہ ستائی جائیں اور الله بخشنے والا نہایت رحم والا ہے۔" (سورۃ الاحزاب،آیت 59)

ترجمان القرآن حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے مسلمان عورتوں کو حکم دیا ہے کہ جب وہ کسی کام کے لیے اپنے گھروں سے نکلیں تو سر کے اوپر سے اپنی چادریں لٹکا کر اپنے چہروں کو ڈھانپ لیا کریں اور صرف ایک آنکھ کی جگہ کھلی رکھیں۔ صحابی کی تفسیر حجت ہے بلکہ بعض علماء کے نزدیک مرفوع حدیث کے حکم میں ہے۔

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کے قول میں مذکور ایک آنکھ کھلی رکھنے کی رخصت بھی راستہ دیکھنے کی ضرورت کے پیش نظر دی گئی ہے،لہذا جہاں راستہ دیکھنے کی ضرورت نہ ہو گی وہاں ایک آنکھ سے بھی پردہ ہٹانے کی کوئی وجہ نہیں۔ اور "جلباب" اس چادر کو کہتے ہیں جو دوپٹے کے اوپر سے عبا (گاؤن) کی طرح اوڑھی یا پہنی جائے۔

حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کا بیان ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو انصاری خواتین گھروں سے نکلتے وقت اس سکون و اطمینان سے چلتیں گویا ان کے سروں پر پرندے بیٹھے ہیں اور انہوں نے سیاہ رنگ کی چادریں لپیٹ رکھی ہوتیں۔
عبیدۃ السلمانی رحمۃ اللہ علیہ (تلمیذ حضرت علی رضی اللہ عنہ) کا بیان ہے ہے کہ مسلمان عورتیں سروں کے اوپر سے چادریں اس طرح اوڑھا کرتی تھیں کہ آنکھوں کے سوا کچھ ظاہر نہ ہوتا اور وہ بھی اس لیے کہ راستہ دیکھ سکیں۔
(تفسیر ابن کثیر،تفسیر سورۃ الاحزاب،آیت :59)

میں نے کہا کہ اب آپ بتائیں قرآن صحیح کہہ رہا ہے کہ نعوذباللہ وہ 'عالم' صاحب درست ہیں؟
آج کی مسلمان عورتیں ٹی وی پروگرامز سے اس قدر متاثر ہیں کہ اس کو غلط ماننے کو تیار ہی نہیں ہے۔ اس کے متعلق کہتی ہیں کہ اس چینل پر تو بہت عالم فاضل لوگ ہیں، ان کے پاس تو بہت علم ہے۔

میں کہتا ہوں کہ یہی ان صاحب کا علم ہے کہ اس نے قرآن مجید کی آیات اور عملِ صحابیات کو اپنی خود ساختہ دلیل سے غلط کردیا۔ ٹی وی کے ذریعے تو اسی طرح کی دینی معلومات مل سکتی ہے۔ ٹی وی کے بیشتر پروگرامز تو ذریعہ ہی مسلمانوں کو دین سے دور کرنے کا ہیں۔

ہم اپنے اللہ کے جتنے بھی شکر گزار ہوں کم ہے کہ اس نے ہمیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا امتی بنایا۔ ہمارے پاس تو دین کو سیکھنے کے لیے قرآن و حدیث موجود ہے، مستند تفاسیر اور احادیث کی مستند شرح موجود ہیں، ہمیں کہیں اور دیکھنے کی کیا ضرورت ہے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات ہی انسان کی مکمل اصلاح کا ذریعہ اور دنیا آخرت کی کامیابی کی ضامن ہیں۔


About the author

160