اورنگزیب عالمگیر کے جانشین

Posted on at


اورنگزیب عالمگیر کی پانچ بیٹے اور تقریبا پانچ بیٹیاں تھیں ۔ اس کے سب سے بڑے بیٹے کا نام محمد سلطان تھا اور یہ ٣٩ سال کی عمر میں اپنے باپ کی دور حکومت میں ہی وفات پا گیا ۔ اس کے دوسرے بیٹے کا نام محمد معظم تھا اور تیسرے بیٹے کا نام محمد اعظم تھا ۔ اس کو اکثر اعظم تارہ کے نام سے بھی پکارا جاتا تھا ۔ چوتھے بیٹے کا نام اکبر تھا اس نے اپنے باپ کی مخالفت کی لیکن اس میں کامیاب نہ ہو سکا اور ہندوستان سے فرار ہو گیا ۔



جب اورنگزیب کی ٩١ سال کی عمر میں وفات ہوئی تو شہزادہ اعظم بادشاہ کی وفات سے کچھ دیر پھلے ہی مالودہ کی صوبیداری کیلئے روانہ ہی ہوا ۔ ابھی اس نے کچھ ہی فاصلہ تے کیا ہو گا کہ اسے بادشاہ کی وفات کی خبر ملی ۔ اور اس کو اپنی بہن کی طرف سے بلاوا آ گیا ۔ یہ پیغام سن کر شہزادہ اعظم فورا واپس پہنچا ۔ اپنے باپ کی تدفین کے بعد ہی اس نے ١٧٠٧ کو تخت نشین ہو گیا ۔ تمام فوجی افسروں اور وزیروں نے اس کو بادشاہ تسلیم کر لیا ۔ اس دور کے زوالفقار خان نے شہزادہ اعظم کو مشورہ دیا کہ اپنے اہل و عیال کو دولت آباد کے قلعے میں پناہ دے ۔ اور اس راستے کو چھوڑ کر دیول گھاٹ کی طرف سے پیش قدمی کرے ۔ اور چن قلیج خان اور غازی دین کے ساتھ مل کر مہم کو پایہ تکمیل تک پہنچاۓ ۔ بادشاہ نے اس مشورے کو رد کر دیا اور اپنے ہی منصوبے کے مطابق پیش قدمی کرتا رہا ۔



وفات سے پہلے اورنگزیب نے ایک وصیت نامہ بھی تحریر کیا تھا ۔ جن میں سے کچھ نقات یہ ہیں ۔ چار روپے کی ٹوپیاں بیچنے کی مزدوری محل کی آیہ بیگم کے پاس ہونگی ۔ ان پیسوں سے میرے کفن کا بندوبست کیا جاۓ ۔ تین سو روپے قرآن کریم کی کتابت کے ہیں ۔ جو وفات کے بعد غریبوں میں بانٹ دی جاۓ اور اس کے باقی اخراجات شہزادے کے وکیل سے لے لیے جائیں ۔ والی ملک کا فرض ہے سب کی دلجوئی اور مدد کرے ۔ اگر اس سے کوئی غلطی ہو گئی ہو تو معاف کر دے ۔ اس نے بارہ وصیتیں کیں اور کہا کے بارہ کا لفظ مبارک ہوتا ہے ۔ اس لئے اس نے بارہ وصیتوں پر اپنی وصیت کو ختم کیا ۔  



  



About the author

160