عیوب کی پردہ پوشی

Posted on at


یہ احادیث اس گناہ کی پردہ پوشی کے بارے میں ہیں جو سرزد ہو اور ختم ہوجائے۔لیکن وہ گناہ جس میں وہ اسے مبتلاپاتا ہے اور وہ اس گناہ کا عادی سمجھا جاتاہے تو جو شخص طاقت رکھتا ہو تو اس کے لیے اس گناہ کی فوری مذمت کرنا اور اسے اس گناہ سے روکنا ضروری ہے ۔
پردہ پوشی۔
جوشخص بھلائی کا ارادہ رکھتا ہو تو اس کے لیے ضروری ہے کہ اس کا مقصد لوگوں کی اصلاح ہو نہ کہ ان کی خامیوں کو ڈھونڈنا یا انہیں ظاہرکرنا۔اس کے بارے میں صحیح حدیث میں ترغیب دلائی گئی ہے کہ مسلمان بھائی ایک دوسرے کی پردہ پوشی کریں۔
حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے مروی ہےکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
((من ستر مسلما سترہ اللہ یوم القیامة)) (صحیح بخاری:2442/ابوداؤد:4839)
’’جوشخص کسی دوسرے بندے کی پردہ پوشی کرتا ہے تو اللہ تعالی قیامت کے دن یقیناً اس کی پردہ پوشی فرمائے گا۔‘‘
دوسری حدیث میں نبی کریمﷺ نے فرمایا:
(( لایستر عبدعبدا فی الدنیا ، الا سترہ اللہ یوم القیامة)) (صحیح مسلم :2590)
’’جوآدمی کسی شخص کی پردہ پوشی کرتا ہے اللہ تعالی قیامت کےدن اس کے گناہوں پر پردہ ڈالے گا۔‘‘
ابوھریرة رضی اﷲ عنہ نے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ میری امت کے ہر شخص کو معافی مل جائے گی مگر اپنے گناہ فاش کرنے والے کو نہیں ملے گی . گناہ ظاہر کرنے کی صورت یہ ہوتی ہے کہ آدمی نے رات کو کوئی گناہ کیا. اﷲ تعالیٰ نے اس پر پردہ ڈال دیا مگر صبح اٹھ کر وہ خود ہی کہنے لگا کر رات میں نے یہ یہ حرکات کیں.
ﷲ تعالیٰ نے تو اس کا پردہ رکھ لیا تھا، مگر اب یہ خود ہی اپنے عیب کی پردہ دری کررہا ہے.(بخاری 5721/مسلم،2990)
مسلمانوں کے عیوب کی پردہ پوشی کرنا بہترین عمل ہے کیوں کہ یہ قیامت والے دن تمام مخلوقات کے سامنے ذلت و رسوائی سے بچنے کا سبب بنے گا.
جو بھی انسان گناہ کرے اسے کبھی دوسروں کے سامنے بیان نہیں کرنا چاہیے کیوں کہ اس طرح وہ خود سے پردہ اٹھاتا ہے.
مسلمان کو چاہیے کہ وہ جس طرح اپنے لئے عزت چاہتا ہے اسی طرح دوسروں کیلئے بھی چاہے اور جس طرح اپنے لئے یہ پسند نہیں کرتا کہ کوئی اس کی عزت خراب کرے اسی طرح دوسرے کیلئے بھی سوچے۔
اللہ ہمیں اس کو سمجھنے اور عمل کی توفیق دے۔ آمین


About the author

160