حال ہی کے کچھ برسوں میں سردیوں کے دوران ملک کے اکثر علاقوں میں دھند چھائی رہی سردیوں میں اس دھند کے دوران بہت سے حادثات اور قیمتی جانیں بھی ضائع ہوئیں انہیں حادثات نے سائنسدانون کو بھی مجبور کر دیا کہ دھند کے بارے میں تحقیق کی جائے اور یہ معلوم کیا جائے کہ اس کی وجہ کیا ہے اس کے بارے میں مختلف سرکاری اور غیر سرکاری ادارون نے تحقیق کی مگر سب سے اچھی تحقیق پاکستان کے سائنسی و خلائی ادارے سپارکو نے کی سپارکو نے دوسال تک دھند کے نمونے اکٹھے کر کے ان کو امریکہ معائنے کے لیے بھجوائے
سائنسدانون کا خیال ہے کہ دھند دو قسم کی ہوتی ہے قدرتی دھند اس وقت پرتی ہے جب شدید سردی ہو ، ہوا کی نمی ، زمینی ذرات جو کہ ہوا میں معلق ہوں ان کے ساتھ مل جاتی ہے جسکی وجہ سے دھند عمل میں آتی ہے لیکن جیسے جیسے سورج چڑھتا ہے دھند میں کمی واقع ہوتی ہے جبکہ انسانی پیدا کردہ یا انسانوں کی سرگرمیوں کے باعث وجود میں آئی ہوئی دھند سورج کے نکلنے کے بعد بھی خاصی حد تک قائم رہتی ہے
انسان کی پیدا کردہ دھند عموماصنعتی سرگرمیوں کی وجہ سے وجود میں آتی ہے مختلف کارخانوں کی چمنیوں سے نکلنے والے دھوئیں میں اگر گندھک کی گیس سلفر ڈائی آکسائیڈ شامل ہو کر قدرتی دھند کے ساتھ مل جائے تو یہ تیزابی تاثیر کی حامل ہو جاتی ہے دھند کا ایک سبب صنعتی استعمال سے جلنے والے کوئلے سے پیدا ہونے والی سلفر ڈائی آکسائیڈ ہے جسکے ذرات کی وجہ سے دھند پیدا ہوتی ہے کیونکہ سردیوں کے دنوں میں ہوا کا رخ مشرقی ممالک سے پاکستان کی جانب ہوتا ہے ہوا وہاں کی آلودگی اڑا کر ہماری طرف لے آتی ہے جس سے پاکستان کی آبو ہوا بھی آلودہ ہو جاتی ہے