حق کی قیمت

Posted on at


حق کی قیمت


 


سرداران قریش اسلام کی روز افزوں ترقی سے سخت نالاں تھے . انہوں نے اسلام کی اشاعت روکنے کے لئے ہر ممکن اقدام کیا تھا ، لیکن انھیں اپنی کوششوں سے کچھ خاص کامیابی نظر نہ آئی تو اب کی دفع ابہوں نے سختی سے کا لینے کی نرمی سے کام نکلوانے کا فیصلہ کیا . اپنے ایک دانشور سردار عتبہ کو حضور پاک ( صل الله علیہ وسلم ) کے پاس گفتگو کے لئے بھیجا . عتبہ نے جا کر حضور کریم ( صل الله علیہ وسلم ) سے کہا کہ اے میرے بھتیجے ، اگر تم اس کاروائی سے مال و دولت جمع کرنا چاہتے ھو تو ھم خود ہی تیرے پاس اتنی دولت جمع کر دیتے ہیں کہ تم مالا مال ھو جاؤ اور اگر تم عزت کے بھوکے ھو تو ھم تم کو بادشاہ عرب بنا دیتے ہیں ، اب تم جو چاہو سو ھم کرنے کو تیار ہیں 


 


مگر اس کے بدلے تمھیں ھم سے وعدہ کرنا ھو گا کہ تم اس دعوت و تبلیغ کے کام سے ہاتھ کھینچ لو گے اور اپنے اس طریقے کو خیرآباد کہہ دو گے ، اگر تمھارے دماغ میں کچھ خلل آ گیا ہے تو وہ بھی بتا دو ، ہم تمھارا بہترین علاج کروائیں گے . حضور ( صل الله علیہ وسلم ) اس قریشی سردار کی کم عقلی پر مسکراۓ اور فرمایا کہ جو بھی کچھ ابھی تم میری بابت کہا ، اس میں ذرا بھی سچائی نہیں ہے . مجھے مال ، عزت ، دولت ، شہرت ، حکومت کچھ درکار نہیں ہے اور نہ ہی میرے دماغ میں کوئی خلل ہے . اگر تم میری بات سمجنا چاہتے ھو تو قرآن مجید سنو . پھر نبی پاک ( صل الله علیہ وسلم ) نے سوره بقرہ کی چند آیات تلاوت فرمائیں ، جن میں عقیدہء توحید ، رسالت اور آخرت کو پوری شرح و بسط کے ساتھ بیان کیا گیا تھا


 


بلاشہ یہ آیات کلام پاک کی اس قدر بے مثال تھیں کہ عتبہ چھپ چاپ سر جھکاۓ سنتا رہا اور جب حضور اکرم ( صل الله علیہ وسلم ) نے تلاوت ختم کی تو خاموشی کے ساتھ اٹھ کر واپس چلا گیا . قریش کے سردار اس کے مشن کے نتیجہ کے انتظار میں بے چینی کے عالم میں بیٹھے تھے . جیسے ہی عتبہ انکے پاس آیا ، سرداروں نے سوالات کی بوچھاڑ کر دی . عتبہ نے ان سے بس اتنا کہا کہ اے گروہ قریش ، میں ایک ایسا کلام سن کر آیا ھوں جو نہ تو کہانت ہے اور نہ شعر ہے ، نہ ہی کسی قسم کا کوئی جادو ہے اور نہ منتر کہہ سکتے ھو . تم میری بات مانو  تو محمد کو اس کے حال پر چھوڑ دو


 


اگر محمد ( صل الله علیہ وسلم ) غالب آیا تو وہ تمھارا بھائی ہے اور نتیجہ برعکس آیا تو جان چھوٹی . اس بات کو سن کر قبائل کے سب سرداروں نے خفگی اور غصّے کا اظہار کیا اور کہا کہ عتبہ پر بھی محمد کی زبان کا جادو چل گیا ہے . پھر انہوں نے فیصلہ کیا کہ سب مل کر ابو طالب کے پاس چلتے ہیں اور ان سے بات کرتے ہیں کہ وہ اپنے بھتیجے کو روک دیں . چنانچہ سرداران قریش مل کر ابو طالب کے پاس گئے . ان میں سے ایک نے ترجمانی کی اور کہا کہ اب تک آپ کہ ھم سب نے بہت دل سے ادب و احترام کا معاملہ کیا ، لیکن آپ کا بھتیجا ہمارے بتوں اور خداؤں کو برا بھلا کہتا رہتا ہے . اب کی بار اس کو سمجھا دیں ورنہ ہم اسے مار دیں گے اور تم اکیلے سب سے بدلہ بھی نہ لے سکو گے


 


ابو طالب نے حضور اکرم ( صل اللہ علیہ وسلم ) کو بلوایا اور اپنی صورتحال سامنے رکھ کر اسلام کی اشاعت کو روکنے کی اپیل کی ، مگر الله تعالیٰ کا نبی ( صل الله علیہ وسلم ) ایک بار پھر مسکرا کر بولا کہ چچا جان ، اگر یہ لوگ میرے دائیں ہاتھ میں سورج اور بائیں ہاتھ  میں چاند بھی رکھ دیں تب بھی میں اپنے کام سے باز نہیں آؤں گا اور خدا کے حکم سے  ایک حرف بھی کم و بیش نہیں کروں گا ، خواہ اس مقصد میں میری اپنی  جان ہی کیوں نہ چلی جاؤں 


اس طرح سرداران قریش کا یہ حملہ بھی ناکام ھوا اور اسلام غالب آ کر ہی رہا


 


میرے مزید بلاگز  سے استفادہ حاصل کرنے کے لئے میرے لنک کا وزٹ کیجئے


http://www.filmannex.com/NabeelHasan/blog_post


 


بلاگ پڑھ کر بز بٹن پر ضرور کلک کیجئے گا


 


شکریہ ...الله حافظ


 بلاگ رائیٹر   


نبیل حسن ٹرانسلیٹر


 


 


 



About the author

RoshanSitara

Its my hobby

Subscribe 0
160