ایک جان لیوا مرض، تب دق

Posted on at


ایک جان لیوا مرض، تب دق


ایک طرف ہمارے معاشروں کو بدعنوایت، متعلقہ اداروں کے ذمہدارن کی عفلت نے ہمارے ماحول کو آلودہ کیا ہوا ہے دوسری طرف دوسری طرف ان عوامل کے بہت زیادہ منفی اثرات یہاں کے رہنے والی باسیوں کی صحتوں پر بھی براہ راست ہیں۔  مثلاً فیکٹریوں سے آلودہ گردو غبار ، دھواں اور گندا کیمیکل شدہ پانی کو ٹھیک طریقے سے ٹھیکانے  لگانے کا قانون تو حکومتی قوانین کے کاغذات میں لکھا تو ہے لیکن اس پر متعلقہ تعنیات افسران کی غفلت کی وجہ سے عمل درآمد ناممکن ہے۔  ٹی ایم اے یعنی میونسیپل کمیٹی  شہروں کا کوڑا کرکٹ کو آبادیوں سے دور اور بہتر طریقے سے ٹھیکانے لگانے کے کروڑوں کے فنڈ تو لیتی ہے لیکن ان کے بہترین کام ہمیں جابجا سٹرکوں کے کنارے  کوڑے کرکٹ کے انبار کے طور پر دیکھ سکتے ہیں۔  ایک طرف صحت عامہ کے متعلقہ احکام عوامی صحت کی آگائی کی گھنٹیاں بجا رہے ہوتے ہیں تو دوسری طرف دوسرے اداروں کے حکومتی اہلکار ان قوانین کا دھجیاں اڑا رہے ہوتے ہیں۔  ہم تیسری دنیا کے مقیمی ہیں جہاں غربت و افلاس و جہالت نے ان گنت مسائل سے دوچار کیا ہوا ہے۔



ہمارا پینے کا پانی گندا ، فضا آلودہ ہے۔ گھروں کے قیام کے لئے بنیادی انفراسٹکچر نہ ہونے کے سبب گھروں کے بیج گلیاں تگ اور ان گلیوں کے بیج نکاسی آب کے لئے نالے غلازت بھرے پانی کی وجہ سے مچھروں اور مکھیوں جراثیموں کی پروشگائے بنی ہیں۔



آج ان بنیادی صحت اور پرفضا ماحول کی عدم دستیابی کی وجہ سے ہمارا معاشرہ بیماریوں کا شکار ہے۔ افراد اور بچے لاغر کمزور اور سست ہیں اور خاندان کا  کوئی نہ کوئی فرد کسی بیماری  کا شکار ہوتا ہے۔



  ٹیوبرکولوسزز اُردو میں تب دق حرف عام میں ٹٰی بی ، ہمارے ملک میں سالانہ ساٹھ ہزار افراد کی زندگیوں کے چراغ گل کر دیتی ہے۔ اس بیماری کے حوالے سے پاکستان دنیا میں چھٹے نمبر پر ہے جہاں چھ لاکھ سے زائد افراد سالانہ اس مرض کا شکار ہوتے ہیں۔ دنیا میں بھی یہ بیماری پسماندہ اور غریب ملکوں میں ہی ہے جہاں پچاسی لاکھ سے زائد افراد اس بیماری کا شکار ہیں اور متاثریں کی تعدار میں تیزی سے اضافہ ہی ہو رہا ہے اس بیماری کا تعلق ہمارے ماحول سے براہ راست ہے  جو پھیپھڑوں کو متاثر کر کے دیگر جسمانی اعضاء  مثانے ، غدود ، آنتیں،  پیٹ ، ریڑ کی ہڈی اور دماغ کو بھی نشانہ بناتا ہے۔  ٹی بی ایک نہاہت خطرناک چراثیم ہے جو ہوا سے پھیلتے ہیں اور ہوا سے ہی ایک فرد سے دوسرے فرد کو منتقل ہو سکتا ہے اس لئے احتیاطی تدابیر کے طور پر چھینک آنے پر منہ کے آگے رومال وغیرہ رکھنا چاہیئے۔



ٹی بی کی علامات میں گھانسی اور بخار شامل ہیں اور متاثرہ افراد گھانسی کے ساتھ خون آنے کی شکایت بھی کرتے ہیں۔  اس مرض میں مبتلا مریض سانس پھولنے کے مسلئے سے بھی دوچار ہوتے ہیں اور سینے میں بھی درد محسوس کرتے ہیں۔  اگر کوئی شخص متواتر دو ہفتوں تک گھانسی اور بخارکی کفیت میں ہو تواسے فوراً ماہر طب سے رجوع کرنا چاہیئے۔  اس مرض کا علاج تویل اور صبر آزما بھی ہے ، جب کوئی مریض اس کا مرض کا کورس شروع کریں تو اس کو مکمل کریں اس کو ادورہ چھوڑ دینا مزید جسمانی پیچیدگیوں کا پیش خیمہ بن سکتا ہے۔  یہی وجہ ہے ڈاکٹر حضرات اس مرض کا مکمل کورس کرنے پر زور دیتے ہیں ورنہ اس بیماری کا چراثیم مزید توانا ہو کر مریض کی جان کو خطرات میں ڈال دیتا ہے۔



ہمارے ملک پاکستان میں لاکھوں ٹی بی کے  کیس سالانہ رجسٹر کئے جاتے ہیں وجہ تو صاف ظاہر ہے ، غربت و افلاس کی وجہ سے سہولیات کی عدم دستیابی،  حفظان صحت کے اصولوں سے ناآشنائی اور آلودہ فضائی ماحول ہے۔  عالمی اداریں برائے صحت بھی اس ضمن میں اس بیماری کے خاتمے کے لئے کوشاں ہیں اور دنیا بھر کی حکومتوں کو اس بیماری کے خاتمہ کے لئے اپنا اپنا کردار ادا کرنے کا زور دے رہے ہیں۔



اس خطرناک ، جان لیوا بیماری کا خاتمہ کیا جاسکتا ہے اگر حکومت مخلصانہ طور پر اس بیماری کے جراثیم کی جانچ ، تشخیص کی سہولیات اور معیاری ادویات کی فراہمی کو یقینی بنائے کے ساتھ ساتھ متعلقہ اداروں کے زمہ داروں کو اپنا الو سیدھا کرنے پر بھی دباؤ ڈالے اور ملک کے دور دراز علاقوں میں ماہرین تب دق کی تعیناتی کو ممکن بنائے۔


 



160