آب زم زم

Posted on at


آب زم زم در حقیقت حضرت ابراہیمؑ کی آزمائش کا نتیجہ ہے آج کل جہاں تک مکہ مکرمہ آباد ہے کئی ہزار سال پہلے یہاں ریت اور پہاڑی صحرا کے علاوہ کچھ نہ تھا اس زمانے میں حضرت ابراھیمؑ اپنی بیوی حضرت حاجرہؓ کے ہمراہ اور اپنے چھوٹے سے بچے کو حکم الہٰی یہاں چھوڑ گئے بچے کی عمر چند دن تھی ماں اس بچے کے ہمراہ صحرا میں تنہا رہ گئی کوئی پر سان حال نہ تھا سورج کی تپش اور دھوپ کی شدت نے پانی پینے کے لیے مجبور کر دیا۔




 بچے کے ہونٹ خشک ہو گئے تھے ماں نیند سے جاگی تو بچے کی حالت دیکھ کر گھبرا گئی اور حضرت حاجراؓ نے اللہ تعالیٰ کو پکارا اے اللہ پانی صرف ایک گھونٹ پانی میرے لیے نہیں اس بچے کے لیے یعنی حضرت اسماعیلؓ کے لیے اے خدا میرے ننھے بچے کو پانی کا قطرہ عطا فرما بچے کا پیاس سے برا حال تھا ماں پانی کی تلاش میں کبھی ادھر کبھی ادھر آخر بچے کی حالت نے ماں کو بے چین کر دیا کبھی وہ صفا کی پہاڑی پر چڑھتی ہے تو کبھی مروہ پہاڑی پر دوڑ کر پانی کی تلاش کرتی ہے اس بھاگ دوڑ میں بچے کی فکر بھی لاحق ہے کہیں بچے کو کوئی نقصان نہ پہنچ جائے کبھی آسمان پر نگاہ دوڑاتی ہیں۔



 پہاڑوں پر دوڑ لگا رہی ہیں جب ساتویں مرتبہ پہاڑ پر چڑھ کر دعا مانگ رہی تھی تو بچے نے بے تابی سے زمین پر پاؤں رگڑے تو جہاں ایڑیاں تھیں وہاں آب زم زم کا ظہور ہوا یعنی پانی کا چشمہ پھوٹ پڑا حضرت حاجراؓ نے خدا کا شکریہ ادا کیا اور بچے کو پانی پلایا اور خود بھی پیا اور آج بھی یہ چشمہ جاری ہے ہزاروں لاکھوں مسلمان یہ پانی پیتے ہیں حج کے دوران حاجی لوگ آب زم زم کا پانی پیتے ہیں اور اپنے وطن بھی لے کر جاتے ہیں مسلمانوں کے لیے یہ پانی تبرک ہے بلکہ اس کو پینا سنت رسول اللہ ﷺ ہے اس کو پینے سے دنیاوی بیماریوں سے نجات ملتی ہے مسلمانوں کے لیے آب زم زم ثواب سے کم نہیں۔




About the author

bilal-aslam-4273

i am a student

Subscribe 0
160