کراچی کا منظر نامہ

Posted on at


کراچی میں مجوزہ بلدیاتی انتخابات کی تیاریاں شروع ہو گئی ہیں۔ اسکے ساتھ سیاسی رہنماؤں کی ٹارگٹ کلنگ کا بھی سلسلہ جاری ہے۔ جنوری کے اوائل میں بلوچ اتحاد کے سربراہ انور بھائی جان کو قتل کر دیا گیا۔ ابتدائی دور میں یہ ایک سماجی تحریک تھی پھر یہ سیاسی جماعت بن گئی اور بلوچ اتحاد نے پیپلز پارٹی کے مظبوط مرکز لیاری میں پیپلز پارٹی کو چیلنج کرنا شروع کیا۔ پیپلز پارٹی کی مخالف جماعتوں نے بلوچ اتحاد کی حمایت کی تھی۔ گزشتہ انتخابات میں بلوچ اتحاد صوبائی وزیر امتیاز شیخ کے قائم کردہ اتحاد کا حصہ تھی۔

ان انتخابات سے پہلے بلوچ اتحاد کے ایم کیو ایم سے اچھے تعلقات تھے۔ مگر گزشتہ انتخابات میں ایم کیو ایم نے لیاری کی قومی اسمبلی کی نشست اور صوبائی اسمبلی کی نشستوں پر اپنے امیدوار علیحدہ کھڑے کیئے تھے۔ مگر بلوچ اتحاد کا کوئی امیدوار کبھی قومی انتخابات میں کامیاب نہیں ہوا۔ لیاری میں عام آدمی کی زندگی اجیرن بن کر رہ گئی۔ جرائم پیشہ افراد لیاری میں ہر وقت لوٹ مار کا بازار گرم رکھتے ہیں۔ لیاری کے قدیم باشندے بھی سر عام لیاری میں سفر کرنے سے گریز کرنے پر مجبور ہیں۔

پولیس نے چند ماہ قبل لیاری سے ان گروہوں کے خاتمے کے لیئے ایک طویل آپریشن شروع کیا تھا۔ مگر لیاری کے سیاسی کارکن کہتے ہیں کہ پولیس حکام بھی ان گروہوں کی سرپرستی کرتے ہیں۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ لیاری میں مزید سیاسی رہنما قتل ہونگے۔ اس صورتحال میں لیاری کی اقتصادی،سماجی اور سیاسی زندگی ختم ہو رہی ہے۔ لیاری ہمیشہ پیپلز پارٹی کا مرکز رہا۔ صوبائی حکومت ایک منصوبہ بندی کے تحت لیاری میں غیر سیاسی کلچر تیار کر رہی ہے تا کہ پیپلز پارٹی شکست سے دو چار ہو سکے۔

پیپلز پارٹی لیاری کے بعض رہنما ان جرائم پیشہ گروہوں سے قریبی رابطہ میں ہیں۔اسلیئے لیاری کی صورتحال کے بارے میں پیپلز پارٹی ملک بھر میں راۓ عامہ ہموار نہیں کر رہی جبکہ صرف پیپلز پارٹی ہی راۓ عامہ ہموار کر کے لیاری کو بچا سکتی ہے۔یہاں کے باشندوں کے سیاسی شعور نے بڑے بڑے آمروں  کو شکست سے دوچار کیا ہے۔ لیاری کی باشندوں کی سامراج دشمن سوچ سے ملک کے مظلوم طبقات کی تحریک کو ہمیشہ تقویت ملی ہے۔ اگر لیاری جرائم پیشہ گروہوں کے مکمل نرغہ میں چلا گیا اور وہاں کا سیاسی کلچر تباہ ہو گیا تو ملک کی سیاسی تحریک کو بڑا نقصان پہنچے گا۔



About the author

160