بچوں میں ذہنی دباؤ

Posted on at


کیا بچے بھی ذہنی دباؤ کا شکار ہوتے ہیں؟ یہ وہ سوال ہے جو اکثر والدین بچوں کے معالجین سے کرتے ہیں۔ صورتحال یہ کہ ہم حقیقت سے دور بہت سے مفروضوں کے درمیان زندگی گزار رہے ہیں۔ اور ان مفروضوں میں ہمارے بچے اور انکے مسائل بھی شامل ہوتے ہیں۔ بچوں کے متعلق جو مفروضے قائم کر لیئے جاتے ہیں۔ ان میں سے اہک یہ بھی ہے کہ بچے ذہنی دباؤ یا ڈپریشن کا شکار نہیں ہوتے ہیں۔ وہ کھیل کود،بے فکری اور خوشیوں سے بھر پور بچپن گزارتے ہیں۔ فکر انکے قریب بھی آ کر نہیں پھٹکتی اور یہی وجہ ہے کہ وہ ذہنی دباؤ یا ڈپریشن کا شکار نہیں ہوتے۔ بچوں کی ذہنی صحت پر انکی آئندہ کی پوری زندگی کا دارومدار ہوتا ہے لیکن والدین کا یہ مفروضہ بہر حال مفروضہ ہی ہے۔ بد قسمتی سے یہ مفروضہ اب زیادہ دیر تک سچائی سے دامن نہیں بچا سکتا۔

حقیقت یہ ہے بچے بھی ذہنی دباؤ کا شکار ہوتے ہیں۔ لیکن اسکے اسباب جان کر اسکے تدارک کے لیئے درست تشخیص کے بجاۓ جو طریقے استعمال کیئے جاتے ہیں۔ بعض اوقات وہ اس خلل کو اور بھی طویل بنا دیتے ہیں۔بچوں میں زہنی تناؤ کا کس طرح سے مشاہدہ کیا جا سکتا ہے۔ تا کہ مرض کو اس کی ابتدائی سطح پر ہی تشخیص کر کے اسکے بروقت تدارک کے لیئے مناسب علاج کیا جا سکے۔ بچوں میں ذہنی تناؤ کا مرض پایا جاتا ہے۔ اور یہ مرض بہت ہی کمسنی یعنی ایک سے دو سال کی عمر میں ہی اس پر حملہ آور ہو سکتا ہے۔ ذہنی تناؤ اسکول جانے والے بچوں میں عام طور پر پایا جاتا ہے۔ اس حوالے سے کی جانے والی متعدد مختلف تحقیق کے اعداد و شمار کا نہایت احتیاط سے جائزہ لینے پر یہ بات سامنے آئی ہے

 کہ اسکول جانے والے کم از کم پانچ فیصد بچے ذہنی تناؤ کا شکار ہوتے ہیں۔ معالجین کے مطابق بچوں کی ذہنی صحت اور ان میں ذہنی تناؤ کی درست تشخیص میں والدین کا ہی رویہ اکثر بڑی رکاوٹ ثابت ہوتا ہے۔ والدین کا رویہ بچوں کی ذہنی صحت کے متعلق اس وقت معالجین کے لیئے زیادہ پریشان کن ہوتا  ہے جب بچے کی عمر چھوٹی ہو یا پھر یہ کہ وہ بلوغت کی طرف بڑھ رہا ہو۔ دوسری رکاوٹ یہ ہے کہ بالغ افراد میں ذہنی تناؤ کی علامات کا مقابلہ اگر بچوں کے ذہنی دباؤ سے کیا جاۓ تو اس میں خاصا فرق ہوتا ہے



About the author

hadilove

i am syed hidayatullah.i have done msc in mathematics from pakistan.And now i am a bloger at filmannex.and feeling great

Subscribe 0
160