جہاں کا حساب غم

Posted on at


روس کے بکھرنے پر مغربی ممالک کے اشتہار بازوں،دولت کے پجاری،سرمایہ دار ذہنیت کے لوگ اور ہمارے خود پسند خود غرض طبقہ نے کیسی بغلیں بجائی اور کہا گیا کہ کمیونزم ہمیشہ کے لیئے ختم ہو گیا۔ جب اسپین سے ان عربوں کو دیس نکالا ملا جو ۲۰۰ برس سے حکومت کر رہے تھے۔ اس پر دنیا بھر میں سیمینار اور جلسے ہوۓ یہ سمجھنے کے لیئے کہ کیا یہ سچ ہو گیا ہے۔

اور اب دنیا کے تمام پڑھے لکھے پروگریسیو بھلے مانس لوگ اس بات پر متفق ہیں کہ جب تک تیسری دنیا کی ۸۰ فیصد آبادی غربت کی نچلی سطح پر رہے گی۔ اور وہاں بے روزگاری، جہالت،بیماریاں،بھوک،قحط،نا امیدی،مذہب کے کٹر پن،ڈکٹیٹر،بادشاہ اور وسائل کی نا ہموار اور غیر منصفانہ تقسیم باقی رہے گی۔ اس وقت تک مارکس اور اسکا فلسفہ زندہ رہے گا اور اشتراکیت کے لیئے جد وجہد جاری رہے گی۔

قوموں کے سچے ہمدرد،راہ نما،انسانیت اور ارتقا کے پرستار کمیونزم کے لیئے لکھتے رہے گے۔ جد و جہد ہوتی رہے گی۔ لوگ اپنی جان کی بازی لگاتے رہے گے۔ اس وقت تک جب پسماندہ دنیا کے لوگ ترقی یافتہ ممالک کے عوام کے ہم پلہ نہیں ہو جائنگے۔ پسماندہ دنیا،پسماندہ ممالک ویلفیئر سٹیٹس نہیں بن جائینگے۔ سولہویں صدی کے ابتدا میں یورپ کے بیشتر ملکوں نے افریقہ،شمالی جنوبی امریکہ،ایشیا اور آسٹریلیا میں اپنی کالونیاں بنا لیں اور ان پر اپنے اقتدار کو مستحکم کر لیا۔ وہاں کی پیداوار معدنیات اور دوسرے وسائل سے پورا پورا فائدہ اٹھا رہیں تھیں۔ یورپ صنعتی سرمایہ داری اور صنعتی انقلاب کے دور میں داخل ہو گیا تھا۔  دنیا کی دولت سمٹ کر یورپ میں جمع ہو رہی تھی۔ برطانیہ کی عمل داری اور راج میں چوبیسوں گھنٹے سورج کہیں نہ کہیں موجود ہوتا تھا۔

چودھویں صدی میں یورپ میں نشاط ثانیہ کا عمل شروع ہوا،چھاپہ خانے ایجاد ہوۓ کتابیں شائع ہوئیں۔اٹھارویں صدی میں انقلاب فرانس آیا اور بادشاہوں کے دن پورے ہوۓ بڑا ادب پیدا ہواتعلیم سے دماغ روشن تر ہوۓ۔



About the author

160