پاکستان کے سرکاری اسکول اور اساتزہ

Posted on at


پاکستان کے سرکاری اسکول اور اساتزہ

صورتحال اس وقت اور بھی بدتر ہو جاتی ہے جب تعلیم کے یہ رہنما جسمانی سزا پر پکا یقین رکھتے ہیں اسے نوخیز ذہنوں کو تسلیم دینے کا واحد طریقہ تصور کرتے ہیں۔ وہ اپنی مرضی سے جب چاہیں یہ طریقہ استعمال کرتے ہیں جس کے نتیجے میں طلبہ  کی اموات اور زخمی ہونے کے واقعات پیش آہے ہیں کہ محکمہ تعلیم نے مینا بازار منانے کے لیے عین امتحانات کے بیچ میں پرچے ملتوی کرنے کے لیے حکم جاری کردیا۔

 


 

ان سرکاری اسکولوں میں لاہبریریوں اور ساہنس لیبارٹیوں کا وجود نہیں اس لیے طلبہ و اساتذہ کوہی تحقیقی کام کرسکتے ہیں نہ ساہنس  کے مضامین کے پریکٹیکل کر سکتے ہیں۔ ان سکاری اسکولوں کے لیے کام کرنے والے ادارے جیسی کیر فاؤنڈیشن ﴿پبلک پراہیویٹ پارٹنرشپ کے تحت﴾ اس امر کو یقینی بنا رہے ہیں کہ وہ جس اسکول میں بھی قدم رکھیں اسے لاہبریریوں اور ساہنس لیبارٹریوں سے آراستہ کریں۔


 

سرکاری اسکولوں میں تعلیم لے معیار پر ہنگامی توجہ کی ضرورت ہے۔ اگرچہ ان اسکولوں میں انگریزی کو میڈیم قرار دیا گیا ہے تاہم سرکاری اساتذہ کو پتہ نہیں کہ انگریزی کو میڈیم قرار دیا گیا ہے تاہم سرکاری اساتذہ کو پتہ نہیں کہ انگریزی میں کیسے پڑھاہیں کیونکہ وہ خود اردو میڈیم کے پڑھے ہوہے ہیں اور ایک ثانوی زبان میں پڑھانے کیلیے ایک ہفتے کی تربیت سے کوہی مدد نہیں ملے گی۔

نظم وضبط کو فقدان ان سرکاری اسکولوں کی ایک اور بیماری ہے۔ سرکاری اساتذہ اور ہیڈ ٹیچر کا دیر سے آنا وہ اسے اپنا پیداہشی حق سمجھتے ہیں اور یہ رویہ طلبہ تک منتقل ہوتا ہے جو وقت پر اسکول پہنچنے کو اہمیت نہیں دیتے جس کے نتیجے میں طلبہ اور اسٹاف دونوں میں غیر حاضری کی حوصلہ افزاہی ہوتی ہے یوں لگتا ہے کہ سرکاری شعبے میں تعلیم میں بڑے پیمانے پر تبدیلیاں لانے کے لیے عزم کا فقدان ہے۔ یہ عمل صرف سیاستدان کے نعروں سے انجام نہیں دیا جاسکتا جو صرف ووٹ حاصل کرنے کیلیے اقربا پروری کو فروخ دیتے ہیں اور میرٹ کو نکال باہر کرتے ہیں اگر پاکستان کو مستقبل میں خوشحالی کی طرف بڑھنا ہے تو تعلیم کا بجٹ بڑھانا ہوگا۔

ایک بجے کی خواہش۔۔۔
 ً۔۔ً میں بھی اسکول جانا چاہتا  ہوں پڑھ لکھ کر بڑا آدم بننے کی خواہش رکھتا ہوں میں بھی ایک بڑا آدمی بننا چاہتا ہوں اپنا نام کمانا چاہتا ہوں پرمیں ایک پرچون کی دکان میں کام کرتا ہوں۔

ماہانہ ایک ١۰۰۰ روپے ملتے ہیں پر اسکول کی فیس بہت مہنگی ہے، کتابیں بھی بہت مہنگی ہیں۔ اگر مجھے کتابیں اور اسکول فیس، یونیفارم مل جاہے میں بھی ضرور اسکول جاؤں گا۔۔ اور اپنی قوم اور ملک کا نام خوب روشن کروں گا ً۔۔

   



About the author

qamar-shahzad

my name is qamar shahzad, and i m blogger at filamannax

Subscribe 0
160