بچوں میں ذہنی دباؤ،علاج ممکن ہے ۲

Posted on at


اسطرح کے حالات میں جبکہ وہ ذہنی دباؤ کا شکار ہیں۔ انکے یہ رویئے مزید بیماریوں کو جنم دے دیتے ہیں۔ اور انکی آئندہ کی زندگی صحت مند روئیوں پر استوار ہونے کے بجاۓ منفی روئیوں پر استوار ہونے لگتی ہیں۔ ایسے بچوں کو تعلیم سے رغبت نہیں رہتی ہے اور نہ ہی وہ کسی قسم کی تفریحی سرگرمیوں یا کھیلوں وغیرہ میں دلچسپی لیتے ہیں۔ ماہرین نفسیات کے مطابق تشویش اور ذہنی دباؤ کا شکار ایسے کئی بچے اپنے خدشات اور تشویش سے خود نمٹ لیتے ہیں۔ یا والدین کی مدد سے اپنا مسئلہ حل کر لیتے ہیں۔ تاہم جو اس بنور سے نہیں نکل پاتے ہیں انہیں اس سے چھٹکارے کے لیئے درست رہنمائی میسر نہیں آتی ہے۔ ایسے میں وہ بگڑ جاتے ہیں۔ اور پھر انکا مستقبل تباہ برباد ہو جاتا ہے۔

بچے چھوٹے ہو یا بڑے، تھوڑا بہت ذہنی دباؤ تو ہر کسی کو ہو سکتا ہے۔ تا ہم اگر بچے کے روئیے تشویشناک حد تک بدلنے لگیں تو ان پر توجہ دینا لازمہ ہے۔ ان میں تھکان،بھوک کی کمی، بے چینی، درد سرکی علامات ملتی ہیں۔ تمام علامتوں کو دیکھنے کے باوجود ان بچوں کا اصل مرض نظروں سے اوجھل رہتا ہے۔ کیونکہ والدین سوچتے بھی نہیںکہ بچے کو کسی چیز کے بارے میں طویل فکر مندی بھی ہو سکتی ہیں۔

جسکے باعث وہ ذہنی دباؤ کا شکار ہو سکتا ہے۔ بچے چونکہ بالغوں کی طرح اپنے خوف سے نبردآزمائی کی صلاحیت نہیں رکھتے اسلیئے ان پر ذہنی دباؤ اور تشویش کے گہرے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ بچوں کے امور سے منسلک ماہرین نفسیات کا کہنا ہے کہ” اگر بچے مستقل طور پر تشویش میں مبتلا رہیں تو آہستہ آہستہ ان میں ڈپریشن در آتا ہے۔

مختلف کیفیات اور علامات کے آمیزے کا نام تشویش ہے۔ اسے معالجین عمومی تشویش کہتے ہیں۔



About the author

hadilove

i am syed hidayatullah.i have done msc in mathematics from pakistan.And now i am a bloger at filmannex.and feeling great

Subscribe 0
160