غلول

Posted on at


جو سامان اور مال اسباب کئی آدمیوں میں مشترک ہو اور وہ بانٹ کر علیحدہ علیحدہ نہ کیا گیا ہو۔ اس میں کوئی چیز دوسرے ساتھیوں سے چھپا کر لے غلول کہلاتا ہے۔ جیسے جنگوں کے دوران لوٹا ہوا مال جسے چاہے کسی نے بھی لوٹا ہو وہ سارے سپاہیوں کا ہی حصہ ہوتا ہے۔ جب تک ان کا افسر یا امیر باقاعدہ بانٹ کر ہر کسی کو حصہ نہ دے دے یا کسی کو خاص طور پر لینے کی اجازت نہ دے اس میں سے چوری کے یا غلط بیانی سے کچھ لے لینا بھی غلول ہی ہے۔


 


اس طرح کرنے والے کو یہ خیال ہوتا ہے کہ جب اس میں سب کا حصہ ہے۔ اس میں سے میرا کچھ کم یا زیادہ لے لینا جائز ہے تو یہ اس کا خیال غلط ہے۔ اس میں سب کا برابر حصہ ہے جب تک وہ تقسیم نہیں ہوا اس میں سے سب کی اجازت کے بغیر وہ کسی کے لیے بھی حلال نہیں۔ قرآن پاک نے تشریح کی ہے کہ سپاہی تو سپاہی امیر عسکر بھی یہ حرکت کرے تو گنہگار ٹھرے۔


اور چونکہ انبیا اکرامؑ بھی امیر ہوتے تھے۔ اس لیے ان کی نسبت توکسی کو یہ وہم بھی نہیں ہونا چاہیے کہ وہ ایسا کام کریں گے۔ فرمایا اور کسی نبی کی یہ شان ہی نہیں کہ وہ غنیمت میں سے چھپا کر لے لے۔ غزوہ خیبر کے مال غنیمت میں سے مدعم نام کے ایک غلام نے ایک شملہ چرایا تھا۔


خیبر سے چل کر جب وہ لوگ وادی القریٰ تک پہنچے تو ایک ناگہانی تیر اس غلام کو آکر ایسا لگا کہ اس کا کام تمام ہو گیا۔ یعنی وہ وفات پا گیا تو مسلمانوں نے کہا اس کو جنت مبارک ہو۔ یہ سن کر آنحضرتؑ نے فرمایا۔ قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے۔ جس شملہ کو اس نے خیبر میں تقسیم سے پہلے لے لیا تھا وہ اس پر آگ کا شعلہ ہوا ہے۔ لوگوں نے سنا تو یہ اثر ہوا کہ ایک شخص نے جوتے کا تسمہ لیا تھا۔ اس کو بھی سامنے لاکر ڈال دیا۔



قاعدہ یہ تھا کہ جب لڑائی ختم ہوجاتی تھی تو حضرت بلال تین بار پکارتے تھے ۔ جس کے پاس جو سامان ہے وہ لے آئے پھر پانچواں حصّہ نکال کر اس کے بعد تقسیم ہوتی تھی ۔ پھر بعد میں اگر کوئی آتا تو اس کو قبول نہ کیا جاتا تھا ۔ ایک بار تقسیم کے بعد ایک شخص ایک لگام لے آیا اور عرض کیا کہ اے اللہ کے رسولؐ یہ ہم نے لوٹا تھا۔ فرمایا کہ تم نے بلالؓ کی تین بار منادی نہیں سنی اس نے کہا سنی تھی ۔ پوچھا پھر اس وقت کیوں نہیں کر آئے اس نے معذرت کی فرمایا تم اس کو قیامت میں لے کر آنا میں اسکو قبول نہیں کرتا ۔ اس لیے ہمیں چاہیئے کہ جس بھی کام پر ہم کو اختیار ہو اس میں سے کچھ چھپا جائیں وہ غلول ہے ۔ وہ قیامت کے دن لانا پڑے گا۔



About the author

160