بد شگونی اور واھموں سے کیسے بچا جائے؟(حصہ دوم)

Posted on at


 

خواتین، مردوں کی نسبت زیادہ بدشگونی اور واھموں میں گرفت ہوتیں ہیں اس کے لیے پرھا لکھا یا ان پڑھ ہونا ضروری نہیں بیشتر پڑھی لکھی اور روشن خیال ماحول میں رہنے والی خواتین بھی اس قسم کی توہمات پر یقین رکھتی ہیں شادی بیاہ کے موقع پر بھی اس قسم کے عجیب وغریب عقائد کا مظاہرہ دیکھا جا سکتا ہے مثلا دولہن کے پاس صرف دو عورتیں رکھی جا سکتی ہے جو سہاگنیں ہوں اگر آپ دیہات میں چلے جائیں تو وہاں کے گھروں میں آپ کو اس قسم کے لا تعداد فضول اور بے منطق عقائد ملیں گے

آج بھی پنجاب کے بیشتر دیہات مین جہاں کسی بچے کی پیدائش ہوتی ہے اس گھر کے باہر کسی درخت کی تازہ ٹہنیوں کو گچھوںنکی شکل میں لٹکا دیا جاتا ہے اس کا مطلب ہے کہ یہاں نومولود آیا ہے لہذا یہاں وہ عورت نہ آئے جسکا کوئی بچہ فوت  ہو چکا ہو یا وہ بانجھ ہو، حد تو یہ ہے کہ لوگون نے اپنے ذہنون مین ایسے بے تکے تہمات بٹھا رکے ہیں کہ جو زیادہ ہنستا ہے وہ پھر روتا ہے اور ہنسی دل کو مردہ کردیتی ہے

حقیقت یہ ہے کہ اس طرح کے تمام عقائد کمزور لوگوں کے ذہنوں کی پیداورا اور زمانہ جاہلیت کی باقیات ہیں اسلام اس بدشگونیوں اور توہمات اور عقائد باطلہ کا مخالف ہے اور اسلم میں یہ بھی جائز نہیں کہا آپ کام کرنے سے پہلے کسی نجومی وغیرہ کی مددلیں اس لیے اگر آپ کے ذہن مین کوئی ایسی بد شگونی آتی ہے تو فورا( لا حول و لا قوۃ الا باللہ عظیم )پڑھے ۔



About the author

sss-khan

my name is sss khan

Subscribe 0
160