شخصیت، رویؔے اور دماغ

Posted on at


خراب رویوں کے حامل لوگوں کو ہم اکثر ‘‘بددماغ’ کہہ دیتے ہیں۔ زیادہ تر لوگ کہتے ہیں کہ خراب رویوں کے حامل شخص کو بددماغ کہنا درست نہیں کیونکہ رویے دماغ سے نہیں شخصیت سے تعلق رکھتے ہیں، لیکن معالجین نے اس بات کو غلط قرار دیا ہے۔ معالجین کا دعویٰ ہے کہ کارکردگی، صلاحیت اور رویوں کا تعلق بھی دماغ سے ہے۔ دماغ ہمارے جسم کا ایک اہم ترین حصہ ہے جسے کہ بجا طور پر جسم کا کنٹرول روم کہا جا سکتا ہے لیکن اب شخصیت کی تعمیر میں اس کے کردار کی اہمیت بھی واضح ہو گئی ہے۔ طبی محققین کا کہنا ہے کہ کسی بھی شخص میں صلاحیت کی کمی، کسی بات پر ضرورت کے مطابق توجہ نہ دینا یا خراب رویہ مجموعی طور پر ایک دماغی خلل ہے، جسے طب کی زبان میں ‘‘توجہ کی کمی کا خلل’’ کہا جاتا ہے۔ اسے مختصراً اے ڈی ڈی کا نام دے کر کئی ذیلوں حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔


 


اے ڈی ڈی کو چھ حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے اور ان چھ اقسام میں اس کی علامات، رویوں پر ان کے اثرات اور کارکردگی کے متا ثر ہونے کی علامات بیان ہیں کہ ان کے ذریعے یہ معلوم کیا جا سکتا ہے کہ متاثرہ شخص اے ڈی ڈی کی کس قسم کا مریض ہے۔ تشخیص کے بعد تھراپی، ادویات اور غذا میں ردوبدل کے ذریعے اس کا علاج بھی کیا جا سکتا ہے اور سب سے اہم بات یہ کہ چھوٹے بچوں سے لے کر معمعر افراد تک یکساں طور پر اس خلل میں مبتلا ہو سکتے ہیں۔


 


اس دماغی خلل کا علاج ممکن ہے لیکن ہم یہ نہیں کہ سکتے کہ ایک تشخیص سب کے اوپر یکساں لاگو آ سکتی ہے۔ اے ڈی ڈی مکمل طور پر ایک جنیاتی دماغی خلل ہے لیکن اگر ہم اس خلل سے متاثر ہیں تو اس کے زیر اثر اپنے خراب رویوں اور غلطیوں کی ذمہ داری دوسروں پر ڈال کر خود کو با آسانی بری الذمہ قرار دے لیتے ہیں۔ اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ ہم یا تو اس کے بارے میں نہیں جانتے یا پھر اگر جانتے بھی ہیں تو اسے نہیں مانتے کیونکہ ہماری مجموعی طور پر ایک عادت ہے اور وہ یہ کہ دیکھی ہوئی چیزوں پر اعتبار کرتے ہیں یہاں ہمیں جان اور مان لینا چاہیے کہ ضروری نہیں کہ ہر وہ چیز جسے جسمانی خلل یا بیماری سمجھا جائے، وہ دکھائی بھی دے۔


 


مختلف ڈاکٹروں نے اے ڈی ڈی سے متاثرین کے دماغ کے تفصیلی معائنے کے بعد کہا ہے کہ یہ نہ صرف مکمل طور پر جنیاتی دماغی خلل ہے بلکہ یہ نہایت پیچیدہ بھی ہے۔ ڈاکٹرز نے اے ڈی ڈی کے خلل سے متاثرہ افراد کی نہایت محتاط طور پر تشخیص کے لیے جوہری طبی سہولیات کی مدد سے دماغ کی مکمل اسکینگ کی، جس کے بعد یہ ثابت ہو چکا ہے کہ دماغ اے ڈی ڈی کی مختلف اقسام کا منبع ہے اورانسان کے رویوں، کارکردگی اور صلاحیت کا مرکزی محور اس ک سر ہے۔ ہر چیز کا جاننے کے لیے دیکھنا چاہیے لیکن اے ڈی ڈی کو دیکھا نہیں بلکہ سمجھا اور جانا جاتا ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ ماہرین نفسیاتی رویوں کو مجموعی شخصیت، تربیت کے ماحول اور دوستوں کی صحبت کے پس منظر میں دیکھتے ہیں لیکن دراصل یہ دماغی خلل ہے اور اس کا علاج بھی ناممکن نہیں۔۔۔۔۔۔۔




About the author

Asmi-love

I am blogger at filmannex and i am very happy because it is a matter of pride for me that i am a part of filmannex.

Subscribe 0
160