اقبال بحثیت شاعر (حصہ سوم)

Posted on at


غناعیت و موسیقیت: اقبال عروس فطرت کے بہت بڑے پر ستار تھے –وہ ان معنو ں می اچھی و عمدہ شاعری کی ایک لازمی صفت ترنم و موسیقیت ہے-ہر چھوٹے بڑھے شاعر کے کلام میں کسی نہ کسی نو ع کی موسیقیت ضرور پائی جاتی ہے –بصورت دیگر شعر اور نثر کے اثرات یکساں ہونگے –میر سے لے کر داغ تک اور داغ سے لے کر اب تک کے ہر شاعر کے ہاں موسیقیت کا عنصر ملے گا اور ہر شاعر کی موسیقیت کا انداز الگ ہوگا –

اقبال کی شاعری کا بھی ایک غالب عنصر ان کی انفرادی موسیقیت و غناعیت ہے-آگے جس کی سب سے نمایاں خصوصیت ہمواری و بلاغت ہے- اس اعتبار سے اردو کا کوئی بھی دوسرا شاعر ان کی ہمسری نہیں کر سکتا-اگر داغ ہمواری میں ان کے مقابل ہیں تو بلاغت اور معنوی قدر کے لحاظ سے کم تر ہیں-اور اگر غالب بلاغت میں اقبال کے ہمسر کہے جا سکتے ہیں تو ان کا کلام کی موسیقیت می اقبال سی ہمواری کا فقدان ہے- اقبال کا کوئی مصرع ایسا نہیں جو نازک سے نازک ساز پر گایا نہ جا سکتا ہو 

ان کے اشعار کی موسیقیت ایک مرکب آہنگ ہے جس کو الفاظ و افکار دونوں سے بیک وقت ایک اصلی اور اندرونی تہعلق ہوتا ہے –یہی وجہ ہے کہ اقبال کا ترنم سطحی نہیں بلکہ اس کے اندر تہ بہ تہ گہریاں ہیں – خاموشی ہے چاندنی قمر کی شاخیں ہیں خموش ہر شجر کی وادی کے نوا فروش خاموش کہسار کے سبز پوش خاموش کچھ ایسا سکوت کا فسوں ہے نیکر کا خرا م بھی سکوں ہے اے دل تو بھی خموش ہو جا آغوش میں غم کو لے کے سو جا ں فطرت کے شاعر نہیں ہیں جن معنو ں میں انیس و آزاد یہ جوش و محشر ہیں اور نہ ہی ان کے ہاں خالص نیچرل شاعری کی کوئی خاص مقام حاصل ہے 

لیکن اس می کوئی کلام نہیں کہ وہ فطرت اور مظاہر فطرت سے بہت متاثر ہیں اور ان تاثرات کو جب وہ اپنے قلبی محسوسات می سمو کر الفاظ کا جامہ پہناتے ہیں تو ان کا شعر ایک نازک صورت اختیارکرجاتاہے-ل



About the author

aroosha

i am born to be real,not to be perfect...

Subscribe 0
160