ترقی یافتہ ممالک میں گاڑیوں کا شور اور دھواں

Posted on at


ترقی یافتہ ممالک میں جہاں حکومتیں ایسے مسائل کے حل کا شعور رکھتی ہیں اپنے شہروں میں شور کو کم کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔ وہاں بس یا ٹرک کا ہارن شاذ و نادر ہی سنائی دیتا ہے تاوقتیکہ اس کی انتہائی ضرورت نہ ہو جبکہ ہمارے یہاں بھانت بھانت کے پریشر ہارن ہی ایجاد نہیں کئے جاتے بلکہ بغیر سائلنسر کی موٹرسائیکلیں اور کاریں بھی سڑکوں پر دوڑائی جاتی ہیں حتیٰ کہ اب کاروں میں بوسٹر نصب کرنے کا رجحان بھی زور پکڑ گیا ہے جس سے اچھی بھلی بے آواز کار شور شرابے کا سبب بن کر رہ جاتی ہے مگر اس پر کوئی روک ٹوک عائد نہیں ہے۔ سال میں ایک مرتبہ خصوصی مہم کے ذریعہ پریشر ہارن بسوں اور گاڑیوں سے نکالے جاتے ہیں مگر ان کی کھلی مارکیٹ میں فروخت کو نہیں روکا جاتا جس کی وجہ سے اگلی مرتبہ یہی آلہ مزید جدت کے ساتھ گاڑی کا حصہ بن کر اعصاب پر قیامت ڈھا رہا ہوتا ہے۔ گاڑیوں میں لگائے جانے والے مہنگے ٹیپ ریکارڈز بھی جن کے اسپیکرز کی طاقت پر کوئی حد مقرر نہیں ہے۔ شور میں بے پناہ اضافے کا سبب بنتے ہیں۔ ویگنوں، بسوں، ہوٹلوں اور یہاں تک کہ گھروں میں بھی اونچی آوازوں میں ریکارڈنگ کا سلسلہ عام ہے، تقریبات اور جلسے جلوسوں میں لاؤڈ اسپیکر کا استعمال جاری ہے اور یہ خیال بھی نہیں کیا جاتا کہ اس وقت کسی قریبی اسپتال میں پڑے مریضوں، مساجد میں عبادت گزاروں اور تعلیمی اداروں میں طالبعلموں پر کیا گزر رہی ہو گی اور سب سے بڑھ کر یہ بات کہ یہ شور مجموعی اعتبار سے انسانی اعصاب پر کتنے مضر اثرات کا باعث بن رہا ہے۔


 


اس طرح یہ کہ یہی گاڑیاں بے اندازہ دھواں اڑاتی پھر رہی ہیں اور شہروں میں رہنے والے عوام اس کثیف فضا میں سانس لینے پر مجبور ہیں۔ شور اور دھوئیں سے یوں تو ہر ایک کو متاثر ہونا پڑتا ہے مگر زیادہ نقصان موٹر سائیکل سواروں یا رکشے میں سفر کرنے والوں کو اٹھانا پڑ رہا ہے اور مختلف نوعیت کی بیماریوں نے ایسے افراد پر مستقل ڈیرے ڈال دیئے ہیں۔ ایک تحقیق کے مطابق اوزون کی تہہ کو اس دھوئیں اور کثافت کے باعث شدید خطرات لاحق ہیں۔ سمندری حیات آلودگی کے سبب شدید طور پر متاثر ہو رہی ہے اور مچھلیوں یا جھینگوں کے حجم، وزن اور ذائقے میں ہی کمی نہیں آ رہی بلکہ سطح سمندر پر بہنے والے کیروسین آئل اور پیٹرول سے حاصل ہونے والی اس سمندری خوراک کو بھی بیماریوں کا منبع بنا دیا ہے جسے صحت کے حوالے سے انتہائی اہمیت حاصل تھی۔ شہری آبادی میں اضافے کو روکنے کے ساتھ ہی بعض دوسرے مسائل جن کا یہاں تذکرہ کیا گیا ہے کا حل نکالا جانا ازحد ضروری ہے۔ خصوصاً پاک صاف ماحول اور آلودگی سے محفوظ فضا لوگوں کی اولین ضرورت ہے جسے نظرانداز کرنا ایک اجتماعی طوفان بلاخیز کو دعوت دینا ہے۔


 


یاد رکھیں۔۔۔۔۔۔ ان تمام مسائل سے نبرد آزما ہونے میں حکومتی اداروں کی تمام تر ذمہ داری نہیں ہے بلکہ عام شہریوں کو بھی اس کا حصہ بننا چاہیے۔ اگر آپ کی گاڑی دھواں اگل رہی ہے۔ اس میں بجتا ہوا ٹیپ ریکارڈ سماعت پر ہتھوڑے برسا رہا ہے، آپ کے گھر سے بہنے والا گندا پانی جوہڑ کی شکل میں مچھروں اور مکھیوں کی افزائش کا سبب بن رہا ہے اور آپ کی فیکٹری یا گھر کی چمنی سے نکلنے والا دھوئیں کا بادل قریبی آبادی کو نقصان پہنچا رہا ہے تو اس بات کا انتظار نہ کریں کہ حکومتی ادارے آپ تک پہنچ کر اسے روکیں، بلکہ آپ خود ہی ان کے خاتمے کی سعی کریں کیونکہ فضا میں پھیلی ہوئی آلودگی صرف دوسروں کو ہی نہیں آپ کو اور آپ کے اہل خانہ کو بھی اتنا ہی متاثر کر رہی ہے۔۔۔۔۔۔۔ آپ کا بچہ کھانسی، نزلے یا زکام میں مبتلا ہو تو اسے علاج کی سہولت مہیا کرنے کے ساتھ ہی اپنے اردگرد ایک نظر ضرور ڈالیں کہ کہیں یہ بیماری آپ کی اپنی کسی غلطی کا شاخسانہ تو نہیں ہے؟




About the author

Asmi-love

I am blogger at filmannex and i am very happy because it is a matter of pride for me that i am a part of filmannex.

Subscribe 0
160