عوامی طاقت

Posted on at


عوامی طاقت


اس حقیقت سے ساری دنیا آشنا ہے کہ برصغیر کی تقسیم خدادار صلاحیت و تدبر کے ساتھ ساتھ اس خطہ کے مکینوں کی لازوال قربانیوں کی بدولت ہی ممکن ہوئی۔  سیاسی شعور و آگہی جن اقوام میں پائی جاتی ہے وہ کھرے کھوٹے کی پہچان جیسی قدروں سے آشنا ہو جاتےہیں۔ اس ضمن میں مسلمانان ہند کے جس حصے میں یہ صلاحیت کوٹ کوٹ کر بھری تھی وہ بنگال کے لوگ تھے جسے برصغیر کے تقسیم کے بعد مشرقی پاکستان کی حثیت ملی۔  مغربی پاکستان کے حصے کو جغرافیائی اہمیت حاصل تھی لیکن لوگوں میں علم و دانائی و سیاسی شعور و آگہی کی کمی تھی۔ ایک طرف سے ایک بھائی کی  تدبر و دانائی کی بدولت ایثار و قربانی کی وجہ سے ہی مغربی پاکستان کے حصے میں  ملکی انتظامی امور اور عسکری طاقت کے امور زیادہ آئے۔



یہ تصویر  1906 میں بنگال میں آل انڈیا مسلم لیگ کے قیام پر لی گئی تھی


سچی و کھری بات چاہئے کتنی ہی کڑوی ہو یہی ہے ہندوستان کی تقسیم میں مشرقی پاکستان کے لوگوں کی قربانیاں نسبتاً مغربی پاکستان سے زیادہ تھیں، جہاں اور جس جگہ بھی قائداعظمؒ کو اخلاقی تعاون کی ضرورت محسوس ہوئی مشرقی پاکستان کے لوگ و سیاسی قائدین وہاں پر قائداعظمؒ کے شانہ بہ شانہ نظر آئے۔



قارئین اکرم ، ایثار و قربانی انسان کے اندر ایک بڑی صلاحیت کا نام ہے۔  جس کا عملی مظاہرہ مشرقی پاکستان کے بھائیوں نے مغربی پاکستان کے بھائیوں کو ملکی انتظامی امور سونپ کر کیا۔  لیکن بدقسمتی یہ ہوئی مغربی پاکستان میں تعلیم عام نہیں ہوئی تھی لوگوں پر سیاسیات و دانائی و حکمت اور طرز حکمرانی کے طور طریقے سے ناواقفیت نے حکومت کا قلم دان نا اہل لوگوں کے سپرد کر دیا گیااور کئی جگہوں پر حکومتی نظام کو زبردستی بھی لیا گیا ، اور عوام نے بیشتر وقت مارشلاؤں کے دور میں گزرہ جس نے  عوامی صلاحیتوں کو جمود کا شکار کر دیا۔ جس نے رفتہ رفتہ بنیادی قومی امور عوامی فلاحی کاموں کو یکسر نظر انداز کر دیا۔  دشمن ملک کے شاطر دماغ نے بھی ہماری اس کمزوری کو خوب بانپ لیا اور اس ملک کو نقصان پہنچانے کا کوئی موقعہ نہیں گنوایا۔  دشمن ملک کے پے در پے حملوں کی جھلک اب تک دیکھی جا سکتی ہے۔  چاہئے وہ خاجہ یا داخلہ ملکی امور ہوں۔ سیاسی ہوں کہ عسکری ہوں، جغرافیائی حدود کی خلاف ورزیاں ہو یا شمالی پہاڑوں سے ذرائع آب کے حصول ہوں اس کے وار کی ہر ضرب سنی جا سکتی ہے یہ اللہ تعالیٰ بڑا کرم و فضل ہوا ان ضربوں کی سہنے اور جواب دینے کی صلاحیت اللہ نے ہمارے دلوں میں پیدا کر دی چائے پس پردہ جو بھی عالمی قوتیں اپنے ایجنڈوں کی تکمیل کے لئے کارفرما ہوں۔  لیکن اللہ کے فضل سے ابدی دشمن کے سارے مذموم عزائم خاک میں مل گئے ہیں۔ گو کہ اس میں ہمارے ماضی  و حال کے  حکمرانوں کی بہت سی کمزوریاں بھی ہیں۔



دوسری جنگ عظیم سے پہلے دنیا کی شکل بہت مختلف تھی۔ دنیا کی بڑی بڑی قومیں اپنی رعایا پر جبراً حکومت کر رہی تھی۔  آزادی حق راہے اور آزادی اظہار راہے پر پابندی تھی۔  حکمرانوں کا طرز زندگی بڑا شہانہ تھا لیکن عوام کسماپرسی کی زندگی گزار رہے تھے ۔  عسکری شعبے میں اسلحہ و بارود کی ترقی نے انداز حکمرانی کو نئی جہت دی۔  لیکن یکسر حالات نے پلٹا کھایا اور چھ سال کی خوفناک جنگ نے دنیا کی قوام کو ایک نئی سوچ و آگہی کی روشنی دی۔  جس نے دنیا میں علم و فن کے ہنر کوتقویت دی۔ دنیا اس حقیقت سے روشناس ہو گئی کہ جب تک ریاست کے ہر شخص کو برابری کے حقوق کی سطح پر نہ لایا گیا تو دنیا میں قوموں عشرو انجام نشان عبرت سے کم نہ ہو گا۔  سوشل ازم ، کیمو ازم ، سیکولر ازم کے نظام اسی سوچ کی پیداوار ہیں۔



 


 یہ سارے نئے نظام حکومت جنگ عظیم دوئم کے متاثرہ ملکوں نے متعارف کروائے۔  ان سارے نظاموں میں عوام کو ہی اصل طاقت کا کرشمہ بتایا گیا۔  عوام کی صلاحیتوں کو اجاگر کرنے کے علوم و فنون اور تعلیم کو عام کیا گیا۔  عام بندے تک علم کی روشنی کی رسائی دی گئی۔  عدل کا بہترین نظام رائج کیا گیا جس میں چائے  امیر ہو کہ  غریب، نواب ہو کہ جاگیردار، بااثر سیاست دان ہو کہ بادشاہ، تاجر ہو کہ ہاجر یا صنعت کار ہر کوئی ریاست کا باشندہ اپنے جرم کی پاداشت میں جواب دہ ہو گا۔  یہی وجہ ہے آج مغربی ملکوں کے عوام اپنی زندگیاں پروقار طریقے سے گزار رہے ہیں۔  اُن کے معاشرے میں عام بندے کا معیار زندگی بلند ہے اور جو اپنی بہترین پیشہ وارنہ صلاحیتوں کو اپنی قوم کے وقف کررہا ہے۔ مشی گن امریکی ریاست کے شہر کی ایک دن کی ایجادات  سارے اسلامی ملکوں کے سال کی ایجادات کے برابر ہے۔  دنیا پر اپنا اثر و رسوخ قائم کرنے کے اصل راز یہی ہیں کہ عوامی طاقت کو علم و فن و عدل و انصاف کی فراہمی یقینی بنا کے عام بندے کی پوشیدہ صلاحیتوں کا باہر لایا جائے باقی محب وطنی تو فطری امر ہے جس مٹی کے خمیر سے جس انسان کا وجود ہو اس  مٹی سے محبت قدرتی ہے جس سے بغاوت قطعی طور پر ناممکن ہے۔



160