ویلنٹائن ڈے - اصل حقیقت

Posted on at


ویلنٹائن ڈے یعنی تجدید محبت کا دن ہر سال پوری دنیا میں ١٤ فروری کو پورے جوش و خروش سے منایا جاتا ہے . نوجوان لڑکے لڑکیاں اپنے اپنے چاہنے والوں کو اس دن پھول، چاکلیٹ اور کیک وغیرہ تحفے میں دیتے ہیں . اس وبا نے پوری مغربی دنیا کو اپنی لپیٹ میں لیا ہوا ہے اور اس کے اثرات اب پاکستان میں بھی نمایاں نظر آتے ہیں .مختلف نجی کولجز اور یونیورسٹیز میں یہ دن ہر سال منایا جاتا ہے اور یوں ہمارے معاشرے پر مغربی چھاپ دن بہ دن گہری ہوتی جا رہی ہے . جنرل مشرف کا دور تھا جب پاکستان میں پہلی بار ویلنٹائن ڈے کا شور بلند ہوا. پہلے پہل یہ صرف پوش علاقوں تک محدود تھا جہاں نوجوان لڑکے لڑکیاں ایک دوسرے کو تحفے دیتے تھے اور تجدید محبت کی جاتی تھی . بعد ازاں اس کو میڈیا نے اشتہارات کے ذریعے بڑھاوا دیا اور آہستہ آہستہ یہ پورے پاکستان میں پھیلتا چلا گیا مگر اس تہوار کو پاکستان کی اکثریتی عوام نے ناگواری سے دیکھا اور نا پسند کیا کیونکہ اس کی وجہ سے نوجوان نسل کا میل ملاپ بڑھ رہا تھا . مغربی تہذیب میں گرچہ خوبیاں پائی جاتی ہیں مگر اس کے ساتھ ساتھ خامیاں بھی بہت سی ہیں اور بحثیت مسلمان ہمارا فرض ہے کہ ہم اچھائیوں کو اپنائیں برائیوں کو نہیں. مغرب میں شہوت پرستی سب سے نمایاں ہے اور ویلنٹائن ڈے اسی برائی کا ایک روپ . یورپی ملکوں میں لڑکے اپنی سہیلیوں کو اس دن تحفے دیتے ہیں اور اس کے بعد عام طور پر رات بھی ایک ساتھ ہی گزارتے ہیں اور اپنی سفلی خواہشات کی تکمیل کرتے ہیں .مگر یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہم کو بھی مغربی تقلید میں یہ حیوانوں جیسی روش اپنا لینی چاہیے جبکہ ویلنٹائن ڈے ایک ایسا تہوار ہے جس کی بنیاد بت پرست اقوام نے رکھی تھی . آئیں اس کی تاریخ پر ایک نظر ڈالتے ہیں



یہ ایک ایسا تہوار ہے جس نے گزرے ہوۓ ٤ ہزار برسوں میں کئی روپ بدلے . اس تہوار کا حقیقی خالق بادشاہ نمرود ہے . سرزمین عراق کا وہ کافر جس کو اسکی رعایا نے دیوتا کا روپ دے ڈالا تھا. اس نمرود کا ذکر قرآن مجید میں بھی آیا ہے. اس علاقے کی دوسری قوموں نے اس کو بعل کے نام سے پکارا . بعل وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس علاقے کا سب سے بڑا دیوتا بن چکا تھا . یونان کی اقوام نے اس بعل کو پان دیوتا کی حثیت سے اختیار کیا . رومی لوگوں نے اس کو لو پرکس کا نام دیا اور اسکی پرستش کرنے لگے . مگر بعد میں رومی لوگوں نے لو پرکس کو گڈریوں کا دیوتا بنا ڈالا .اسکی وجہ یہ روایت تھی کے جب بھیڑ روم کے خالق جڑواں بھائیوں رومونس اور ریموس کو دودھ پلا رہی تھی تو ان کے غار کے باہر لو پرکس کھڑا پہرا دے رہا تھا . یوں لو پرکس کو یونان میں اہم حثیت حاصل ہو گئی. اس واقعے کی یاد میں ایک تہوار منایا جاتا تھا جس کو لوپرسلیا کا نام دیا گیا  اس تہوار کی رسم یہ تھی کہ  نوجوان اور خوبصورت لڑکے اپنے جسم پر ایک کتے اور ایک بھیڑ کا خون گراتے اور ایک ہجوم کی شکل میں سڑکوں پر چل نکلتے



ان لڑکوں کے ہاتھ میں چمڑے کے ٹکڑے ہوتے جس سے وہ ہر سامنے والے کو مارتے جاتے مگر نوجوان لڑکیاں شوق سے مار کھاتیں کیوں کہ انکا عقیدہ تھا کہ اس طرح وہ بانجھ ہونے سے محفوظ رہیں گی. چونکہ اس ہجوم میں نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کی کثرت ہوتی اس لئے یہ تہوار بعد میں میل ملاپ کا ذریعہ بن گیا .اور اسی موقع پر یونانی لڑکے لڑکیاں ایک دوسرے کو تجفے دے کر دوستی کرنے لگے اور یہی تہوار بعد میں تجدید محبت کا تہوار بن گیا . یہی تہوار آگے چل کر سینٹ ویلنٹائن ڈے میں بدل گیا اور لو پرکس اب فطرت کا دیوتا بن گیا . رومیوں کی نئی آنے والی نسل نے نمرود کو ایک اور دیوتا سٹرن کا خطاب دے دیا . نئی روایت کے لحاظ سے سٹرن اپنے دشمنوں سے بھاگ کر اٹلی چلا آیا تھا . اور اس جگہ چھپا جہاں بعد میں روم کی تعمیر ہوئی . مگر اس کے دشمنوں نے اس کو وہاں سے بھی ڈھونڈ نکالا اور قتل کر دیا .  اس لئے وہ رومیوں میں سینٹ یعنی بزرگ کی حثیت حاصل کر گیا . اور مغربی مورخین کے مطابق یہ وہی سینٹ ہے جو بعد میں سینٹ ویلنٹائن کے نام سے منسوب ہوا 



********************************************************


مزید دلچسپ اور معلوماتی بلاگز پڑھنے کے لئے یہاں کلک کریں


بلاگ رائیٹر


حماد چودھری 



About the author

hammad687412

my name is Hammad...lives in Sahiwal,Punjab,Pakistan....i love to read and write that's why i joined Bitlanders...

Subscribe 0
160