ہماری بچپن کی یادوں میں ایک بہت ہی خوب صورت یاد جس کو ہیں کبھی نہیں بھول پاتے وہ سردیوں کی راتوں میں دادی اماں کے پاس بیٹھ کر مزے مزے کی کہانیاں سننا ہیں۔ میری دادی اماں مجھے بہت سی کہانیاں سناتی تھیں جن میں سے اکثر کا تعلق جنوں اور پریوں کے ساتھ ہوتا تھا۔ ہم یہ کہانیاں بہت دلچسچی سے سنتے تھے اور ہماری دادی اماں کے پاس کہانیوں کا ایک عظیم نا ختم ہونے والا زخیرہ ہوتا تھا۔
لہزاکہانیوں کا یہ شوق بچپن سےہی میرے ساتھ ساتھ چلنے لگا اور جب بڑی جماعت میں پہنچا تو مجھے اردو کے افسانے پڑھنے کا شوق ہو گیا۔ افسانے کو انگلش مین شارٹ سٹوری کہتے ہیں۔ کئی لوگ ناول بہت شوق سے پڑھتے ہیں ہیں لیکن ناول مجھے اس لیے اچھے نہیں لگے کہ ناول کا ایک نا ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ جبکہ افسانہ ایک ہی نشست میں ختم ہو جاتا ہے اور بندہ بور بھی ہیں ہوتا اور افسانہ کہ اور اچھی بات یہ ہوتی کہ اس میں کردار زیادہ نہیں ہوتے اور یہ آسانی سے سمجھ میں بھی آجاتا
ہے جبکہ ناول بہت پیچیدہ ہوتا ہے۔
میں نے ہہت سے افسانہ نگاروں کے افسانے پڑھے ہیں۔ یوں توہر افسانہ لکھنے والے نے اپنی محنت سے اسکو لکھا ہوتاہے اور ہر افسانے سے مجھے کچھ کچھ سیکھنے کو ملتا ہے۔
لیکن اس کے ماوجود میرا پسندیدہ افسانہ نگار جو اسکا نام ‘‘ پریم چند ’’ ہے۔ انکا اصل نام ‘‘دھنپت رائے ’’ تھا۔ اور انکے والد کا نام ‘‘ منشی عجائب لال’’۔ وہ ۱۸۸۰ میں ہندوستان کے ایک گاؤں ‘‘پنارس’’ میں پیدا ہوئے۔
(ابھی جاری ہے)
Thank u so much for supporting me
Written by :
Kamil khan